شہباز شریف کو ہٹانا ناممکن۔۔ عمران خان اپنے جال میں خود ہی پھنس گئے
عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پاکستان کی سیاست میں اتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری ہے اور پنجاب کا محاذ فتح کرنے کے بعد پی ٹی آئی نے مرکز میں دوبارہ حکومت بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے
اور اس حوالے سے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے رابطے بھی شروع کردیئے گئے ہیں- تاہم پی ٹی آئی کیلئے اب دوبارہ موجودہ اسمبلی میں اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانا آسان نہیں ہے۔
پارٹی پوزیشن
342 رکن قومی اسمبلی میں اس وقت اپوزیشن اتحاد میں شامل تحریک انصاف 143، مسلم لیگ (ق) 3، جی ڈی اے 3، بی اے پی ایک، ایم ایم اے ایک، عوامی مسلم لیگ کی ایک نشست کے ساتھ
مجموعی طور پر 165 سیٹوں پر براجمان ہے جبکہ حکومتی اتحاد کے پاس مسلم لیگ (ن) کی 84، پیپلزپارٹی 56، ایم ایم اے 14، ایم کیو ایم 7 اور دیگر اتحادیوں کو ملا کر 177 سیٹوں پر برتری حاصل ہے۔
پارلیمانی لیڈر کا کردار
حال ہی میں ہونیوالے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایوان میں پارلیمانی لیڈر کو پارٹی لیڈر کے مقابلے میں زیادہ بااختیار قرار دیا ہے اور اس وقت قومی اسمبلی میں
پاکستان تحریک انصاف کے 25 ارکان موجود ہیں جن کے پارلیمانی لیڈر راجہ ریاض ہیں اور یہ گروپ پارٹی لیڈر سے ناراضگی کی وجہ سے قومی اسمبلی میں موجود ہے جبکہ پی ٹی آئی کے باقی ارکان مستعفی ہوچکے ہیں۔
عدم اعتماد
پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے بعد پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے شہباز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا کر ایک بار پھر عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور اس کیلئے صدر مملکت کی ہدایت پر اسمبلی سے عدم اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکامی پر شہباز شریف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
کہانی میں نیا موڑ
ملکی سیاست میں پل پل بدلتی صورتحال کے دوران کہانی میں ایک اور نیا موڑ آگیا ہے وہ یہ کہ پی ٹی آئی عدم اعتماد کے وقت اسمبلی سے استعفے دیدیے تھے جو اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے منظور کرلئے تھے- تاہم بعد میں آنیوالے
نئے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے مسترد کردیئے تھے لیکن صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے 11 ارکان کے استعفے قبول کرلئے ہیں۔
عمران خان کی کامیابی کا امکان
موجودہ اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے عمران خان کا دوبارہ اقتدار سنبھالنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ حکومتی اتحاد کے پاس 177 سیٹیں ہیں جبکہ اپوزیشن اتحاد کے پاس 165 سیٹیں تھیں تاہم 11 استعفے منظور کرنے کے بعد یہ تعداد 154 ہوگئی ہے
لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 24منحرف ارکان اس وقت راجہ ریاض کے تابع ہیں اور وہ کسی صورت عمران خان کا ساتھ نہیں دینگے کیونکہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے پارلیمانی لیڈر کو بااختیار قرار دیا تھا تو یوں پی ٹی آئی کے پاس کل ملاکر تقریباً 130 سیٹیں آسکتی ہیں
اور اگر پرانے اتحادیوں کو بھی ملا لیا جائے تو پی ٹی آئی بمشکل 150 کا ہندسہ عبور کرسکتی ہے۔ اس لئے موجودہ اسمبلی میں عمران خان کی کامیابی کا امکان وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں آئینی پیچیدگی وجہ سے ناممکن نظر آتا ہے۔