in

دودھ میں یہ 2 دانے ملا کر پی لیں، خون کی کمی ایسی پوری ہو گی کہ حیران رہ جائیں گے ، طاقت کا خزانہ

دودھ میں یہ 2 دانے ملا کر پی لیں، خون کی کمی ایسی پوری ہو گی کہ حیران رہ جائیں گے ، طاقت کا خزانہ

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار خالد مسعود خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اچھے اساتذہ کم ہیں اور ہمارا معاشرہ چونکہ جبر والا معاشرہ ہے لہٰذا لوگ سکول ٹیچر کے بجائے تھانیدار اور پٹواری کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں

ایسا نہیں ہوتا۔ میری بہو امریکہ میں ہائی سکول ٹیچر ہے اور اسے اس بات پر فخر ہے۔ اپنی ہی زندگی کا دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ 1970ء کی بات ہے‘ میں لاہور میں ایک کالج میں پڑھاتا تھا اور میرا چھوٹا بھائی آرمی آفیسر تھا۔ ایک دن میری والدہ مجھے کہنے لگیں کہ پچھلے چند دنوں سے کچھ لڑکیوں کے والدین ہم سے رابطہ کر رہے ہیں، لیکن ان میں نے اکثر تمہارے چھوٹے بھائی سے رشتہ کرنا چاہتے ہیں‘

لہٰذا تم جلد از جلد سی ایس ایس کا امتحان دو؛ چنانچہ ہم نے والدین کی اطاعت کی‘ لیکن میری تدریس کے پیشے کو چھوڑنے کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں ریسرچ نہ ہونے کے برابر تھی۔ دو چار معروف نصابی کتابیں تھیں جو میں نے تین سال طلبا کو پڑھائیں اور محسوس کیا کہ ساری عمر یہی کام کرنا بہت ہی بور عمل ہو گا۔ ہمارے ہاں تدریس کے شعبے میں جدت بہت کم ہے۔پاکستان میں گورنمنٹ سکولوں کا نظام بالکل بیٹھ گیا ہے۔ تدریس کا شعبہ ایک منظم کاروبار بن گیا ہے۔

سکول‘ ٹیچر اور کالج کے پروفیسر اب پرائیویٹ اکیڈمیاں چلا رہے ہیں۔ اور تو اور اب سی ایس ایس کی تیاری کے لیے بھی اکیڈمیاں بن گئی ہیں۔ میٹرک اور ایف ایس سی میں ہر مضمون کے ایم سی کیو (MCQ) زبانی یاد کرا دیئے جاتے ہیں۔ زبوں حال گورنمنٹ سکولوں کا خلا ایک حد تک پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں نے پورا کیا ہے۔ کیمبرج کا او اور اے لیول (O & A level) یقینا بہتر ہے

کیونکہ امتحانوں کے پرچے انگلینڈ سے بن کر آتے ہیں اور ان میں ہر سال جدت لائی جاتی ہے‘ لیکن پرائیویٹ سکولوں کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ غریب آدمی وہاں بچہ بھیجنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔میرے دوست ڈاکٹر خالد آفتاب گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل رہے

اور بعد میں جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی۔ کالج کے کچھ پروفیسر شام کو ٹیوشن سنٹر چلاتے تھے اور خوب کماتے تھے۔ خالد صاحب نے ڈانٹ ڈپٹ کی کیونکہ یہ پروفیسر کالج میں جان بوجھ کر محنت سے نہیں پڑھاتے تھے مگر تنخواہ پوری وصول کرتے تھے۔ جب وارننگ کے باوجود وہ ٹیوشن کے قبیح کاروبار سے باز نہ آئے تو ڈاکٹر صاحب نے محکمہ تعلیم کو لکھا

کہ ان پروفیسروں کا کسی اور کالج تبادلہ کر دیا جائے۔ اس وقت کے وزیر تعلیم جی سی پرنسپل کے آفس سفارش کرنے آئے کہ پروفیسرز کے سر سے دست شفقت نہ اٹھایا جائے، یعنی ٹیوشن کا دھندا جاری رہے۔ہمارے ملک کی نمبر ون یونیورسٹی نسٹ (Nust) ہے اور اس کی بین الاقوامی رینکنگ تین سو پچاس 350 ہے۔ سی ایس ایس کے امتحان میں نوے فیصد سے زائد امیدوار انگلش مضمون (Essay) کے پیپر میں فیل ہوتے ہیں

اور جو پاس ہو کر افسر بنتے ہیں سنا ہے وہ بھی غیر ملکی وفود کے سامنے کم اعتمادی کا شکار نظر آتے ہیں‘ اس لیے کہ ہمارا تعلیمی نظام ناقص ہے۔ ہم دانش ور، اعلیٰ سائنس دان اور لیڈروں کے بجائے روبوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ طوطے پڑھا کر ہم لیڈنگ قوم نہیں بن سکتے۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

دودھ میں یہ 2 دانے ملا کر پی لیں، خون کی کمی ایسی پوری ہو گی کہ حیران رہ جائیں گے ، طاقت کا خزانہ

اتوار کے دن ناشتہ شوہر بنائے گا اور بیوی آرام کرے گی ۔۔ شادی سے قبل دولہا دلہن نے ایک دوسرے سے انوکھا معاہدہ دستخط کروا دیا