دُعا زہرہ کے والدین نے مسجد میں اعلان کروانے کے لیے رابطہ ہی نہیں کیا ۔۔ دُعا کیس میں نئے انکشافات سامنے آگئے
دعا زہرہ کی بازیابی سے متعلق ہر جگہ دعائیں کی گئیں۔ پاکستان بھر میں لوگوں نے دعائیں کیں، سوشل میڈیا پر بھی بھرپور آگاہی مہم چلائی گئی۔ لیکن جب بچی کے ملنے کی اطلاع آئی اور معلوم ہوا کہ اس نے اپنی مرضی سے نکاح کرلیا ہے اور ماں باپ اس کو مارتے تھے، اس پر ہاتھ اٹھاتے تھے۔ دعا نے یہ بھی کہا والد اور کزن نے اغوا کی کوشش کی۔ بہرحال معاملہ اب کھل کر سب کے سامنے آگیا۔
لیکن اس سب میں یہ بات واضح بتائی گئی کہ مسجدوں میں اعلان نہیں کیا گیا کیونکہ دعا کا مسلک الگ تھا اور اس پر معاشرے میں خوب تعصب پھیلایا گیا۔ اسی حوالے سے ایک نجی رپورٹر نے ویڈیو بنائی
جس میں انہوں نے دعا کے گھر سے قریب ہر مسجد کے امام سے بات کی تو معلوم ہوا کہ جناب والدین نے تو بچی کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی ہی نہیں۔ اگر والدین اعلان کروانے کے لیے بولتے تو مسجد میں اعلان کیوں نہ ہوتا؟ ویڈیو میں آپ سن سکتے ہیں کہ واضح بتایا جا رہا ہے کہ مسجد میں اعلان ہی نہیں ہوا۔
اس ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جو سماجی اہلکار دعا اور ان کے شوہرظہیر کے ساتھ ہر ویڈیو میں نظر آئے انہوں نے پورے واقعے کی تفصیل بتا دی ہے۔ اسلم نیازی کہتے ہیں کہ: ” دعا اور ظہیر کی 2 سال سے پب جی کے ذریعے دوستی ہوئی، دونوں کی اچھی بات چیت تھی۔ دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔
ظہیر کے گھر والے دعا کے گھر رشتہ لانا چاہتے تھے وہ لاہور سے کراچی آ رہے تھے، دعا نے گھر میں بات کی تو دعا کی امی نے منع کر دیا۔ جس پر دعا نے ان کو کہا کہ آپ کراچی نہیں آئیں، میں خود ہی آپ کے پاس آؤں گی۔ اس کے بعد دعا کراچی سے لاہور ٹیکسی میں گئی جس کا 20 ہزار روپے کا کرایہ ظہیر نے ادا کیا۔ ”
آئی جی سندھ مشتاق مہر نے لاہور پولیس کی لیگل برانچ میں تعینات ہیڈ کانسٹیبل کو دعا زہرہ کیس میں حاضر دماغی پر ایک لاکھ روپے نقد انعام اور سرٹیفکیٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔