in

مجھے اشفاق صاحب کے قدموں میں دفن کرنا۔۔ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی محبت کو موت بھی شکست نہ دے سکی

مجھے اشفاق صاحب کے قدموں میں دفن کرنا۔۔ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی محبت کو موت بھی شکست نہ دے سکی

میں گھر میں صرف ایک بیوی اور عورت ہوتی ہوں جسے روٹیاں پکانی ہوتی ہیں اور گھر کے کام کرنے ہوتے ہیں“

یہ الفاظ ایک ایسی بیوی کے ہیں جس نے اپنے شوہر سے لازوال عشق کیا۔ یہ الفاظ بانو قدسیہ کے ہیں جنھوں نے اپن قلم سے کئی یادگار ناول تحریر کیے۔ کرداروں کو تخلیق کرتی یہ مصنفہ اپنے گھر میں ایک مشرقی بیوی تھیں جو اپنے شوہر سے بے پناہ محبت کرتی تھیں۔ صرف بانو قدسیہ ہی نہیں بلکہ اشفاق احمد بھی اپنی بیوی کو بے حد چاہتے تھے۔ آج ہم اس آرٹیکل میں ان دونوں کی محبت کی کہانی پر بات کریں گے۔

ہجرت کرکے آنے والی لڑکی

بانو قدسیہ کا تعلق بھارت کی ریاست گرداس پور سے تھا۔ بٹوارے کے وقت وہ اپنے خاندان کے ہمراہ فسادات میں پاکستان کے راستے پر چل پڑیں جن میں ان کا آدھا خاندان لاپتہ ہوگیا جبکہ باقی آدھے میں سے سب قتل ہوگئے صرف ان کی والدہ اور بھائی بچے جن کے ساتھ بانو لاہور آکر بس گئیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا جہاں ان کی ملاقات اپنے ہم جماعت اشفاق احمد سے ہوئی۔

دوستی سے شادی کا سفر

دوستی سے محبت اور محبت سے شادی کا سفر جلد ہی طے ہوگیا۔ بانو قدسیہ سے شادی کے فیصلے کے بارے میں اشفاق احمد نے بتایا کہ “’بانو میں مجھے وہ خوبیاں دِکھیں جو مجھ میں نہ تھیں، تو وہیں سوچا کہ کیوں نہ اُن خوبیوں کو گھر لے آیا جائے۔‘

میں گھر میں ایک عام عورت ہوں

ڈان نیوز میں لکھنے والے صحافی اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ جب وہ اپے شہر سے بطور خاص بانو قدسیہ سے ملنے لاہور ان کے گھر “داستان سرائے“ پہنچے تو ان کا کہنا تھا کہ “میں گھر میں صرف ایک خاتون خانہ ہوں۔ مجھے اپنی روٹیاں خود پکانی ہوتی ہیں اورسارے کام بھی کرنے ہوتے ہیں، اگر آپ آنے سے پہلے پوچھ لیتے تو بہتر ہوتا۔‘‘ لیکن جب انھیں پتہ چلا کہ صحافی ایک دوسرے شہر سے آئے ہیں تو انھوں نے وقت طے کرکے انھیں دوبارہ ملاقات کی دعوت دی۔

اشفاق احمد شوہر کے ساتھ استاد بھی تھے

اشفاق احمد جو خود بھی پائے کے لکھاری تھے اور پاکستان ٹیلی ویژن کے کئی مشہور ڈرامے تحریر کرچکے تھے انھوں نے بانو قدسیہ کی لکھنے کی صلاحیتوں کو شروع سے ہی بھانپ لیا تھا اور ہمیشہ انھیں لکھنے کی ترغیب دی۔ اشفاق احمد کہتے “کبھی مجھ سے دو قدم آگے ہو کر لکھو کبھی دو قدم پیچھے تاکہ مقابلہ سخت رہے“ بانو قدسیہ خود بھی اشفاق احمد کو شوہر اور استاد دونوں کا ہی درجہ دیتی تھیں۔

شوہر کے سامنے کبھی بڑائی نہیں دکھائی

بانو قدسیہ اشفاق احمد سے اتنی محبت کرتی تھیں کہ خود بھی ایک جانی مانی مصنفہ ہونے کے باوجود ان کے گھر آنے جانے والوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا تھا کہ یہ وہی خاتون ہیں جنھوں نے اتنے بہترین کردار تخلیق کیے ہیں۔ گھر میں وہ صرف اشفاق احمد کی بیوی تھیں جو ان کے آرام کا خیال کرتی تھیں ان کی خدمت کرتی تھیں تاکہ ان کے شوہر ذہنی سکون کے ساتھ وہ سب تخلیق کریں جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔

آخری وصیت

کئی دہائیاں ساتھ گزارنے کے بعد اشفاق احمد کا انتقال 7 ستمبر 2004 کو ہوا تو بانو قدسیہ ان کے بعد اکیلی رہ گئیں لیکن پھر 4 فروری 2017کو وہ بھی انتقا کرگئیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ بانو قدسیہ کی وصیت تھی کہ انھیں مرنے کے بعد اشفاق احمد کے قدموں کے پاس دفن کیا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں بانو قدسیہ کی قبر اشفاق احمد کے عین نیچے بنی ہوئی ہے۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

بھائی کے انتقال کے بعد ان کی فیملی کو بھی سنبھال رہے ہیں ۔۔ سینئر صحافی ارشد شریف کی تنخواہ کتنی ہے؟ ان کی فیملی سے متعلق دلچسپ معلومات

باپ آئی سی یو میں تھا تو بیٹے کی شادی میں شرکت کی خواہش کیسے پوری ہوئی؟ باپ بیٹے کی محبت کا انوکھا واقعہ جو اسپتال میں پیش آیا