in

موجودہ غیریقینی اور انتشار کے حالات کی اصل وجہ کی فائل کہاں پڑی ہے جس پر جاتے جاتے عمران خان ایبسلوٹلی ناٹ لکھ گیا؟ اشرف شریف کا خصوصی تبصرہ

موجودہ غیریقینی اور انتشار کے حالات کی اصل وجہ کی فائل کہاں پڑی ہے جس پر جاتے جاتے عمران خان ایبسلوٹلی ناٹ لکھ گیا؟ اشرف شریف کا خصوصی تبصرہ

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اشرف شریف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جمہوریت ایسا نظام ہے جو سماج کی سیاسی فکر میں رونما ہونے والی معمولی معمولی تبدیلیوں کو قبول کرتا ہے۔ اس سے سماج میں نفرت اور اشتعال کا حجم بڑا نہیں ہو پاتا۔ لوگوں کو نئے تقاضوں کے مطابق

حقوق ملتے رہتے ہیں‘ ان کی رائے نظام حکومت میں تبدیلی لاتی رہتی ہے اور وہ ریاست کو اپنا خیرخواہ سمجھتے رہتے ہیں۔ جب ریاست شہریوں کے مطالبات میں آنے والی تبدیلیوں کو راستہ دینے سے انکار کرنے لگتی ہے تو ہم کہتے ہیں: اسٹیبلشمنٹ سٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔جو سیاسی جماعتیں نظام میں شہریوں کے حقوق محدود رکھنے کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ کی حامی ہوتی ہیں وہ بار بار اقتدار میں آتی ہیں‘ ایسی جماعتوں کو سٹیٹس کو کی حامی جماعتیں کہا جاتا ہے۔ پرامن انقلاب کا راستہ مسدود کر دیا جائے‘

عوام کے مسترد لوگوں کو مسلط رکھا جائے تو سماج تبدیلی کے لیے خونیں انقلاب کی طرف راغب ہونے لگتا ہے۔گفتگو اشتعال انگیز ہو جاتی ہے ، خونیں انقلاب سے قبل ایک پڑائو انارکی اور انتشار کا آتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ریاست‘ حکومت اور سماج کا سنجیدہ اور ذمہ دارانہ فیصلہ سامنے نہ آیا تو کئی طرح کی اندرونی و بیرونی طاقتیں پاکستان کو میدان لڑائی بنانے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔

شاید ہم شام جیسا ملک بن جائیں‘ شاید ہمارے شہر تورا بورا کی برباد غاروں کا منظر پیش کرنے لگیں (اللہ نہ کرے)۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں فیصلوں کا اختیار ہے موجودہ انارکی کے اسباب کا علم بھی صرف ان کو ہے۔ یقین کریں یہ کوئی ایساکام نہیں جو ناممکن ہو۔ سب کچھ ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ پولیس ہر کام چھوڑ کر تحریک انصاف کے لوگوں کو پکڑنے پر لگا دی گئی ہے۔ وہ رہنما جو کل تک وزیر تھے‘ معزز تھے‘

ہو سکتا ہے جلد پھر سے وزیر بن جائیں۔ ان کے گھروں میں دیواریں پھلانگ کر پولیس والے داخل ہورہے ہیں‘ ان کو زدو کوب کر رہے ہیں‘ گرفتاریاں ہورہی ہیں‘ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ کل تک جو لانگ مارچ مسلم لیگ ن‘ مولانا فضل الرحمن اور باقی جماعتوں کے لیے جائز اور جمہوری حق کا درجہ رکھتے تھے آج عوام کی اکثریت اسے اپنا جمہوری حق اور نئے الیکشن کو اپنا مطالبہ قرار دے رہی ہے تو کون ہے جو پرامن انقلاب کو انتشار اور خونیں انقلاب کا راستہ دکھا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے۔

جتنے تجزیہ کاروں کی گفتگو ہمارے کانوں میں پڑتی ہے اور جتنے کالم نگاروں کے خیالات سے ہم اپنی رائے درست کرتے ہیں، 99 فیصد کو معلوم ہی نہیں کہ موجودہ انتشار کی اصل وجہ کس فائل میں ایک سمری کی صورت میں پڑی ہے جس پر جاتے جاتے عمران خان “Absolutly Not” لکھ گیا۔ پی ڈی ایم حکومت کے اراکین جب یہ کہتے ہیں کہ ’’عمران خان کو روکا جائے‘‘ تو یہ کسے مخاطب کرتے ہیں‘ حکومت تو ان کے پاس ہے۔ پھر لندن میں بیٹھے ن لیگی قائد اور ان کی جماعت کے سابق وزیراعظم سب کہہ رہے ہیں کہ انہیں عمران حکومت کی بری کارکردگی کا ٹوکرا سر پر نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہر معاملے میں بھائی کی بات کو فوقیت دینے والے وزیراعظم پھر بھی یہ ٹوکرا اٹھانے کو کیوں تیار ہیں۔

آصف علی زرداری نے بلاول کے لیے وزارت خارجہ کیوں پسند کی؟ پی ڈی ایم کو سخت فیصلے کرنے اور پی ٹی آئی کی مزاحمت کچلنے کے مشورے کہاں سے مل رہے ہیں‘ یہ باتیں تجزیہ چاہتی ہیں لیکن ایک بڑا سوال جو جنگل میں لگی اس انتشاری آگ کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت ایک خاص سمری کو فائل سے نکال کر اس پر “Absolutly Yes” لکھنے کو رضا مند ہے۔

زبانی طور پر تو وزیر اعظم متعلقہ طاقت کو یس کا اشارہ دے چکے ہیں۔ اگر آپ کو نظر آئے کہ اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں امریکہ ،عالمی مالیاتی اداروں اور کچھ عرب دوستوں کی جانب سے ہمارے کشکول میں معقول رقم ڈال دی گئی ہے تو سمجھیں مشن “Absolutly Yes” مکمل ہوا۔ جنگل میں آگ لگی رہے گی‘ گھاس پھونس جیسے عام لوگ خاکستر رہیں گے۔لیکن یہ پھر ابھریں گے ، زیادہ مضبوط تنوں کے ساتھ۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کے دماغ ملا کر جو چیز بنتی ہے اسکا مقابلہ کوئی سیاسی طاقت نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔ حیران کن دعویٰ کر دیا گیا

سوزاک ، پیشاب کی جلن، یر قا ن ، جگر مثانہ کی گرمی