پتھر دل فوجیوں نے جنازے کو بھی نہ بخشا، خاتون صحافی کی آخری رسومات کے دوران کیا کچھ ہوا؟
ظالم کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ صرف مظلوم کو نہیں کچلتا ہے بلکہ ہر اس فرد کو بھی کچلنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے ظلم سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے- ایسا ہی کچھ 11 مئی 2022 کو فلسطین کے شہر جینن میں ایک ریفیوجی کیمپ پر اسرائیلی فوج نے حملہ کر دیا-
اس حملے کی خبر جب میڈیا کو پہنچی تو 51 سالہ شیریں ابوعقلیح بھی اپنے ساتھی رپورٹرز کے ساتھ اس ظلم کی کوریج کرنے کے لیے پہنچ گئيں-
انہوں نے پریس کی جیکٹ بھی پہن رکھی تھی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق پریس کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اور ان کو ایسے واقعات کی کوریج کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے-
لیکن اسرائيلی فوجیوں نے تمام بین الاقوامی قوانین کو سپوتاژ کرتے ہوئے الجزیرہ کے رپورٹر پر براہ راست فائرنگ شروع کر دی منہ پر لگنے والی گولیوں کے سبب شیریں موقع پر ہی شہید ہو گئیں جب کہ ان کے ساتھی رپورٹر بھی زخمی ہو گئے-
جبکہ اسرائیلی ڈیفنس فورس کا یہ کہنا تھا کہ شیریں کو اسرائيلی فوجیوں نے نشانہ نہیں بنایا بلکہ وہ فلسطینی مظاہرین کی گولی سے ہلاک ہوئی جب کہ ان کے ساتھی رپورٹر کا یہ کہنا تھا کہ شیریں اور ان پر گولیاں چلانے والے اسرائیلی فوجی تھے-
جان سے تو مار دیا جنازے کو بھی نہیں بخشا
13 مئی 2022 کو جب شیرین کے دوست، ساتھی اور فلسطینی عوام ان کے تابوت کو دفنانے کے لیے احتجاج کرتے ہوئے جب سڑکوں پر نکلے
تو ایک بار پھر اسرائيلی فوجی ان کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے اور انہوں نے تابوت اٹھائے لوگوں پر بری طرح لاٹھیاں چلانا شروع کر دیں-
یہاں تک کہ کاندھوں پر تابوت اٹھائے لوگوں پر اتنی لاٹھیاں برسائی گئیں کہ ایک موقع پر تابوت ان کے ہاتھوں سے گرنے لگا تھا- ظلم اور جبر کے اس عمل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس کو بین الاقوامی میڈیا نہ صرف چھپانے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ اسرائیلی فوجیوں کے ایک جنازے پر لاٹھیاں برسانے کے مناظر کو تصادم قرار دے رہے ہیں-
یاد رہے کہ دنیا کے ہر مذہب میں مرنے والے کی آخری رسومات کا احترام بطور انسان ہر فرد پر واجب ہوتا ہے مگر شائد اسرائیلی فوجی انسانیت کے درجے سے بھی خارج ہو گئے ہیں-