in

بہنوں نے دعا مانگتے وقت جہاں سر رکھا وہیں زمین پھٹ گئی! سندھ میں سات بہنوں کا آستانہ جہاں صرف خواتین کو جانے کی اجازت ہے

بہنوں نے دعا مانگتے وقت جہاں سر رکھا وہیں زمین پھٹ گئی! سندھ میں سات بہنوں کا آستانہ جہاں صرف خواتین کو جانے کی اجازت ہے

بہنوں نے دعا مانگتے وقت جہاں سر رکھا وہیں زمین پھٹ گئی! سندھ میں سات بہنوں کا آستانہ جہاں صرف خواتین کو جانے کی اجازت ہے

دریائے سندھ کے ساتھ بنے شہروں کے بارے میں کئی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن میں ایک سکھر اور روہڑی کے بیچ میں موجود ایک قبرستان کے بارے میں ہے جو دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر ہے۔ عموماً قبرستانوں کو اچھی حالت میں نہیں رکھا جاتا ہے لیکن اس قبرستان کو اس کی انتظامیہ نے اتنا بہترین بنا دیا ہے کہ

عام دنوں میں بھی یہاں لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ یہاں آنے والوں میں زیادہ تر تعداد سندھ اور بلوچستان سے آنے والی خواتین کی ہوتی ہے جو جوق در جوق یہاں آتی ہیں۔ اس جگہ کو ‘ستین جو آستھاں’ یا سات بہنوں کا آستانہ کہا جاتا ہے۔ اس قبرستان کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ لوک داستان کے مطابق یہاں پر سات بہنیں رہا کرتی تھیں۔ ایک دن ان پر راجہ داہر کی نظر پڑگئی اور اس نے فوراً انھیں اُس کے سامنے پاس پیش کرنے کا حکم جاری کیا۔ بہنوں نے اپنی حفاظت کے لیے دعا مانگی۔ کہا جاتا ہے کہ دعا مانگتے وقت بہنوں نے جہاں سر رکھا وہیں زمین پھٹ گئی اور ساتوں بہنیں غار میں دھنس گئیں۔ ایک اور لوک کہانی میں بتایا گیا ہے کہ

یہ سات بہنیں عرب کمانڈر محمد بن قاسم کے قافلے کے ساتھ آئیں تھیں جس کے بعد انھوں نے اس پہاڑی پر قیام کیا۔ کچھ کہانیوں میں بتایا گیا ہے کہ یہ بہنیں محمد بن قاسم کے سندھ آنے سے کافی عرصہ پہلے سے یہاں رہتی تھیں۔ پندرھویں عیسوی میں بکّھر کے گورنر میر عبدالقاسم نمکین نے اس جگہ کو محفوظ کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد اس جگہ کو سجایا گیا۔ یہاں پر اب سات سے زیادہ قبریں موجود ہیں جن پر ایسی منفرد نقش و نگاری کا کام کیا گیا ہے جس سے لگتا ہے کہ یہ کام مغلیہ دور میں ہوا ہو گا۔ گورنر بکّھر کی قبر آج بھی یہاں موجود ہے۔ اسی طرح یہاں کے نچلے حصے کو مہمانوں کے لیے مخصوص کیا گیا جبکہ ادھر سے سیڑھیاں اوپر کی طرف جاتی ہیں جہاں جاتے ہوئے بیچ میں غار آتا ہے جسے سات بہنوں کی یادگار کے طور پر

رکھا گیا ہے۔ یہاں پر بچوں کو سلانے والے جھولے ہیں اور دیوار پر لوگوں نے منتیں مانگنے کے لیے چوڑیاں اور دھاگوں کا استعمال کیا ہوا ہے۔ اس غار میں عورتوں کے علاوہ کسی اور کو جانے کی اجازت نہیں۔ یہاں پر موجود ایک خاتون نے بتایا کہ وہ بچپن سے ادھر آ رہی ہیں۔’میں ادھر آتی رہتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے یہاں آنے کا مقصد یہی ہے کہ میری تمام تر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔‘ یہاں پر لوگ اپنے بیوی بچوں کو لے کر آتے ہیں اور جب غار میں عورتیں جاتی ہیں تب ان کا باہر انتظار کرتے ہیں۔ یہاں آنے والی خواتین بتاتی ہیں کہ یہ وہ واحد دن ہے جب انھیں گھمانے پھرانے کی غرض سے گھر سے نکالا جاتا ہے۔ ایک لڑکی نے بتایا کہ ’مجھے اس کے علاوہ کہیں اور جانے کی اجازت ہو نا ہو، یہاں آنے پر کوئی ممانعت نہیں۔‘ اس جگہ کی تاریخ کے بارے میں تاریخ دان ممتاز بخاری بتاتے ہیں کہ ’ستھین جو آستان‘ میں بکّھر کے گورنر کے میر عبدالقاسم نمکین کے خاندان کے افراد کی بھی قبریں بھی موجود ہیں۔ ‘ان قبروں کا طرزِ تعمیر بتاتا ہے کہ

یہ مغلیہ دور کی بنی ہوئی ہیں۔ سولھویں اور ستھرویں صدی میں مغل حکمرانوں کی یہاں موجودگی تاریخ دانوں نے قلمبند کی ہے۔ یہ ایک ہوا دار جگہ ہوا کرتی تھی اور روہڑی اور سکھّر کے بیچ میں یہ شہر آباد رہا ہے جہاں حکمران آ کر بیٹھا کرتے تھے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’عبدالقاسم نمکین یہاں آ کر محفلیں آراستہ کیا کرتے تھے۔ یہ نہیں پتا کہ یہاں قبریں ہونے سے پہلے موسیقی یا مشاعرے ہوا کرتے تھے یا نہیں یا پھر مذہبی مجالس منعقد کی جاتی تھیں لیکن بہرحال ان محفلوں کا تذکرہ کئی مصنفوں نے تاریخ کی کتابوں میں کیا۔‘ میر عبدالقاسم نمکین نے اپنے رشتہ داروں اور بعد میں سولہا سو عیسوی میں خود اپنے لیے قبر تیار کروائی تھی جہاں پر انھیں دفن کیا گیا۔ یہیں ایک بارہ دری بھی بنی ہوئی تھی جو اب

زبوں حالی کا شکار ہے۔ لیکن ’ستھین جو آستان‘ کو تاریخ دان نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ یہ ایک افسانہ ہے کیونکہ یہ بات سامنے نہیں آ سکی کہ جو سات بہنیں تھیں وہ کون تھیں اور کہاں سے آئیں تھیں اور کیوں یہاں آ کر انھوں نے دعا مانگی جس کے نتیجے میں یہ جگہ غار کی شکل اختیار کر گئی؟ ممتاز بخاری کہتے ہیں کہ سندھ میں ’ستھین‘ کا یہ واحد آستان نہیں ہے۔’یہ تو افسانہ ہے کیونکہ سندھ بھر میں ستھین کا یہ واحد آستان نہیں۔ ایسے آستان آپ کو تھر کے علاقے میں بھی ملیں گے۔ ستھین ویسے تو سہیلیوں کو کہا جاتا ہے اور بہنیں بھی ہوسکتی ہیں۔ کوئی مذہبی گروہ بھی ہوسکتا ہے اور ان کے آستان رہے ہوں کیونکہ ایسے مقامات سندھ میں کئی اور جگہوں پر بھی ہیں۔‘ لوک کہانیاں ہوں یا لوگوں کی خود ساختہ باتیں، ’ستھین جو آستان‘ میں آج بھی خواتین امیدیں لے کر آتی ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہاں آنے سے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تالہ دیکھا تو بیٹے کو فون کیا جواب ملا جہاں جانا ہے چلے جائیں۔۔۔ اولڈ ایج ہومز میں موجود بزرگ ہمارے لیے سبق، اصل قصوروار کون؟

امریکا کی معروف گلوکارہ کے طیارے سے آسمانی بجلی ٹکرا گئی،طیارہ۔۔۔۔۔؟؟؟