تالہ دیکھا تو بیٹے کو فون کیا جواب ملا جہاں جانا ہے چلے جائیں۔۔۔ اولڈ ایج ہومز میں موجود بزرگ ہمارے لیے سبق، اصل قصوروار کون؟
تالہ دیکھا تو بیٹے کو فون کیا جواب ملا جہاں جانا ہے چلے جائیں۔۔۔ اولڈ ایج ہومز میں موجود بزرگ ہمارے لیے سبق، اصل قصوروار کون؟
میں عشاء کی نماز پڑھنے گیا واپس آیا تو گھر کے دروازے پر بڑا سا تالہ پڑا دیکھا تھوڑی دیر انتظار کے بعد بیٹے کو فون کیا کہ تم کہاں ہو بیٹا مجھے نیند آرہی ہے سونا ہے- تو بیٹا کہتا ہے ابا جی ہم بہت دور
آ گئے ہیں آپ نے جہاں جانا ہے چلے جائیں- 80 سالہ محمد افضال یہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے دس سال سے اولڈ ہوم میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بس میری دعا ہے کہ میری اولاد جہاں رہے خوش رہے۔ میں خدا پر بھروسہ کرتا ہوں۔ اس کی نعمتوں کا ہروقت شکر ادا کرنا چاہئے۔ والدین تو اپنی اولاد کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتے۔ 75 سالہ انور احمد کہتے ہیں میں ٹانگوں سے معذور ہو گیا تھا۔ بیوی بچوں نے رکھنے سے انکار کر دیا۔ رخسانہ بیگم کے بچے نہیں تھے۔ شوہر کے انتقال کے بعد بھائی بھابھی کے ساتھ تھیں بھابھی نے برداشت نہیں کیا۔ حنا خاتون کا کہنا ہے بچے سب باہر ہیں اور
میں پاکستان میں رہنا چاہتی ہوں۔ اس لئے اولڈ ہوم کا انتخاب کیا میں یہاں خوش ہوں۔ اس طرح کی ہزاروں کہانیاں سننے میں آئیں اور بڑے بھاری دل کے ساتھ میں گھر واپس آئی اور اللہ تعالیٰ سے ایک خوشگوار بڑھاپے کی گڑگڑا کر دعا مانگی۔ لیکن بعض کیسز میں دیکھا کہ ان کے لئے اولڈ ہومز کی سہولت کسی نعمت سے کم نہیں اور یہ ادارے بڑی خوش اسلوبی سے یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں ۔
دوسروں کی گنوائی ہوئی جنتوں کو بڑی خوبصورتی سے سمیٹ رہے ہیں۔ بیشک یہ بہت ثواب کا کام جس کے لئے ان اداروں کی جتنی داد دی جائے کم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: “اگر تمھاری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اف تک نہ کہنا نہ انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آنا۔”(سورۃ الاسراء )والدین کی
خدمت ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار ہے جس کو ہم مغرب کی تقلید میں کھوتے جا رہے ہیں ۔ والدین اپنی اولاد پر اپنا سب کچھ لٹا دیتے ہیں شاید ہی کوئی شازونادر ماں باپ ہوں جو اولاد کے معاملے میں خود غرضی دکھاتے ہوں۔ ہم اپنی اولاد کو ان کے بہتر مستقبل کے لئے تیار تو کر دیتے ہیں ان کو بہترین تعلیم دے کر لیکن ہم ان کی تربیت میں کہیں نہ کہیں جھول چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کو مستقبل بنانا تو سکھا رہے لیکن ان سے جڑے ہوئے لوگوں کے حقوق کے لئے تیار نہیں کرتے ۔ ہمیں یہ بات ہر پل ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ دنیا ایک مکافات عمل ہے جو بویا ہے وہ کاٹنا ہے۔ حقوق العباد میں والدین کے حقوق سر فہرست ہیں۔ ہم کتنی محنت کر لیں ان کے احسانات کا بدلہ کبھی چکا ہی نہیں سکتے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم ویسے ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ورنہ
بچے بزرگوں کے ساتھ رہتے تھے تو گھر کے بڑے بزرگ تربیت میں حصہ لیتے تھے اور ادب وتہذیب بچہ دیکھ کر بھی سیکھتا تھا۔ آج لوگوں میں برداشت کی کمی ہو گئی ہے۔ صرف اور صرف اپنا مستقبل بنانے کی فکر کہیں نہ کہیں ہمیں خود غرض بنا رہی ہے اور یہ مادہ پرستی ہماری نہیں مغرب کی سوچ ہے۔ جبکہ تربیت کی ایک بہترین مثال ہمیں انڈونیشیا کے اسکولوں سے بھی ملتی ہے جہاں باقاعدہ ایک دن منایا جاتا ہے اور اس روز بچے اپنے والدہ کے پاؤں دھلواتے ہیں- رشتے قربانیاں اور ایثار مانگتے ہیں اپنے سے پہلے دوسرے کے لئے سوچنا جتنا سکون دیتا ہے اتنا کوئی اور
چیز سکون نہیں دیتی۔ اور والدین تو وہ ہستی ہیں جن کی دعائیں ہی ہماری پروٹیکشن ہوتی ہیں اور ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی جنت کو گنوا دیتے ہیں۔ احساس ہمیں ہوتا ہے اور ضرور ہوتا ہے لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ ہم ان کو گنوا چکے ہوتے ہیں۔ پھر ساری زندگی کی تشنگی رہتی ہے ۔ آخر میں والدین کا پیغام بچوں کے لئے۔پیغام:جس دن تم ہمیں بوڑھا دیکھو صبر کرنا اور ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنا۔ جب ہم کوئی بات بھول جائیں تو ہم پر طنز نہ کرنا اپنا بچپن یاد کرنا۔ جب ہم بوڑھے ہو کر چل نہ پائیں تو ہمارا سہارا بننا اور اپنا پہلا قدم یاد کرنا۔ جب ہم بیمار ہو جائیں تو وہ دن یاد کر کے ہم پر اپنے پیسے خرچ کرنا جب ہم تمہاری خواہش پوری کرنے کے لئے اپنی خواہش قربان کرتے تھے۔