عمران خان کو رخصت کرنے کے لیے ساری گیم دراصل کون رچا رہا ہے ؟
لاہور (ویب ڈیسک) ہمارے میڈیا کا قبلہ کس طرف ہے اس کا فیصلہ کرنا بھی کچھ مشکل نہیں۔ بظاہر بڑے بڑے غیر جانبدار مبصر دعوے کر رہے ہیں کہ عمران خان گھبرایا ہوا ہے اور اس کے اقتدار کا سنگھاسن ڈانواں ڈول ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کو خریدنے کے لئے
نوٹوں کی برکھا برسائی جا رہی ہے، نامور مضمون نگار اور پاک فوج کے سابق افسر لیفٹننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔حکومت کے اتحادیوں کے بیانات کو صبح و شام و شب مختلف چینلوں کی زینت بنا کر تحریکِ عدمِ اعتماد کو بالواسطہ تقویت پہنچائی جا رہی ہے، فرمایا جا رہا ہے
کہ عمران خان کو بھی اب ہوش آ گیا ہے اور وہ اتحادیوں کے گھروں میں جا جا کر ان کا ’منت ترلا‘ کر رہا ہے کہ عدم اعتماد کی بیل کو منڈھے چڑھنے سے روکا جائے…… کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہو رہا۔ اس کے پیچھے باقاعدہ ایک بیرونی قوت ہے…… یہ بیرونی قوت کون سی ہے، کون سا ملک یا کون سی انٹیلی جنس ایجنسی ہے جو حکومتیں گرانے یا تعمیر کرنے کا ’کاروبار‘ کرتی ہے،اس کا نام نہ بھی لیا جائے تو لوگ پہنچانتے ہیں …… جس طرح بہار کی ہوا کانام نہ بھی لیا جائے تو یہ اپنا تعارف خود کروا دیتی ہے۔
میں اگرچہ پاکستانی سیاست کا طالب علم کبھی نہیں رہا لیکن ’سدا بہار‘ سیاسی مبصروں کے علی الرغم میرا تجزیہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے تحریکِ عدمِ اعتماد کے غبارے سے نہ صرف یہ کہ ہوا نکلنے والی ہے بلکہ یہ غبارہ پھٹ کر بھک سے اڑ جانے والا بھی ہے۔ میرے اس تجزیئے کی بنیاد یہ ہے کہ جن بیرونی قوتوں (یا ایک قوت) کے بل پر اس تحریک کی کامیابی کا اتنا شور مچایا جا رہا ہے ان کو یہ معلوم نہیں کہ
پاکستانی عوام خواہ وہ اَن پڑھ ہوں یا لکھے پڑھے ہوں اب ان کو تحریکِ عدم اعتماد کے انجام کے مابعد کسی روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوگا کہ عدم اعتماد کی اس ’کامیابی‘ کے بعد کا زمانہ موجودہ عمرانی دور سے بھی بدتر ہوگا۔ مستقبل قریب میں ایسا کوئی سیاسی رہنما عوام کی نگاہوں میں نہیں جو عمران کا بدل بن سکے۔
یہ جو بلاول صاحب کراچی سے چل کر اسلام آباد آ رہے ہیں اور راستے میں جگہ جگہ رک کر اپنے ’گلے‘ کو تکلیف دے رہے ہیں وہ یہ پریکٹس قبل ازیں گلگت بلتستان کے انتخابات کے زمانے میں بھی کر چکے ہیں بلکہ ان ایام میں تو یہ حضرت باقاعدہ وہاں جا کر ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے تھے کہ ”انشاء اللہ فتح یاب ہو کر نکلیں گے“۔ لیکن جب نتیجہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ خواہ مخوا گلا پھاڑا اور لوگوں کا پیسہ برباد کیا…… کچھ یہی حال آزادکشمیر کے الیکشنوں میں بھی دیکھنے کو ملا……
اب معلوم نہیں ایک بار پھر گزشتہ ’کامیابیوں‘ کو دہرانے کا خیال ان کے دل میں کیوں آ گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ سیاست کا حسن یہی ہے کہ بار بار ہار کر بھی فتح کا نعرہ بلند کیا جائے…… لیکن یقین کیجئے گزشتہ تین چار برسوں میں قیامِ پاکستان کے بعد کی پون صدی کے اس ’جمہوری حسن‘ کو گہناتا دیکھنے والوں کی بھی ایک خاصی بڑی تعداد پیدا ہو چکی ہے اور اس کا ثبوت آئندہ چند روز میں قوم کو ملنے والا ہے!!