ایسا تھا میرا لاہور:مال روڈ پر ایک پہلوان کی پان کی دکان تھی‘وہ پان ہاتھ میں نہیں دیتا تھا بلکہ ۔۔۔!!!نامور کالم نگار نے پرانی یادیں تازہ کر دیں
لاہور(ویب ڈیسک)کالج کے دنوں میں لاہور کے مال روڈ پر زمزمہ توپ سے لے کر وائی ایم سی اے ہال تک کا علاقہ ہمارے لیے ایک کلب کی حیثیت رکھتا تھا۔ دوست تقریباً روزانہ ہی شام کو جمع ہو جاتے تھے۔ پھر وہ دو تین تین ہم خیال دوستوں کے گروپس کی شکل میں گپ بازی کرتے تھے۔
نامور کالم نگار افضل رحمان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔!!! کوئی گروپ کسی بینک کی سیڑھیوں پر بیٹھا ہے‘ کوئی زمزمہ توپ کے پاس لان میں بیٹھا ہے‘ کوئی کسی ریستوران میں بیٹھا ہے‘ کوئی انارکلی کا چکر لگا رہا ہے۔ سیاست پر کوئی بات نہیں ہوتی تھی‘ سوشلزم پر بات کرنا اس دور میں فیشن تھا۔ ہمیں پتہ کچھ نہیں تھا لیکن سن سنا کر کبھی لینن کی تعریف کرتے رہنا کبھی مائوکی۔ جو بات سمجھ میں آتی تھی یہ تھی کہ سوشلزم غریبوں کا ساتھی ہے اور امیروں کا دشمن۔اس زمانے میں جس ایریا کا میں نے ذکر کیا وہاں معروف اور غیر معروف کئی ریسٹورنٹ تھے۔ کافی ہائوس‘ چائنیز لنچ ہوم‘ پاک ٹی ہائوس یہ تو مشہور تھے اور دانشوروں سے بھرے رہتے تھے مگر ایک گرین ریسٹورنٹ ہوتا تھا اور ایک تھا وائی ایم سی اے ریسٹورنٹ ۔ ٹولنٹن مارکیٹ کے اندر بھی ایک ریسٹورنٹ ہوتا تھا جہاں ہم کبھی کبھی کلب سینڈوچ کھانے جایا کرتے تھے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ وہاں جمع ہو کر کرتے کیا ہوں گے ہم لوگ ؟ ہم دلچسپ کرداروں کی تلاش میں رہتے تھے اوروہ کافی پائے جاتے تھے ۔کسی نہ کسی کو پکڑ لینا اور پھر اس کردار کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے من پسند موضوع پر بات شروع کر کے اس کو چالو کر دینا۔ایک کردار ان میں تھا ڈاکٹر غفار۔موصوف ڈاکٹر تو نہیں تھے لیکن کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا بلیزر پہنا تھا جو بوسیدہ ہو چکا تھا‘ ایک زمانے میں باقاعدہ طالب علم بھی تھے
‘ وہاں ڈاکٹری پڑھ رہے تھے مگر کمیونزم کا پراپیگنڈہ کرنے کی وجہ سے کالج سے نکال دیے گئے ۔ ان کا تعلق پٹیالہ سے تھا اور وہاں کی وہ مخصوص تلقین شاہ والی زبان بولتے تھے۔ایک ٹوٹی پھوٹی سائیکل ہوتی تھی جس کے کیریئر پر ”پارس‘‘ اخبار کی کاپیاں رکھی ہوئی تھیں‘ یہ سی آر اسلم کی نگرانی میں چھپتا تھا اور مطلبی فرید آبادی اس کے ایڈیٹر ہوتے تھے۔ ڈاکٹر غفار سمجھتے تھے کہ ہم نوجوانوں پر کمیونزم کا پرچار ان کے مشن کیلئے سودمند ہو گا‘ اس لئے وہ ہماری کسی بات کا برا نہیں مناتے تھے۔ جب کوئی دو تین منٹ وہ کمیونزم سے متعلق کچھ بیان کر چکتے تو ہم میں سے کوئی آواز دیتا :ڈاکٹر صاحب اب کوئی لطیفہ ہو جائے‘ وہ ذرا بھی برا نہیں مناتے تھے اور کوئی لطیفہ نما واقعہ شروع کر دیتے تھے اس امید پر کہ بعد میں اپنا مشن جاری رکھیں گے۔ایک اس طرح کا واقعہ مجھے اب بھی یاد ہے ‘ وہ سنایا کرتے تھے کہ پٹیالے کے لوگ الگ تھلگ رہنے کے عادی ہوتے ہیں اور صرف ان سے بات کرتے ہیں جو جاننے والا ہو۔ کہنے لگے: پٹیالے کا ایک باسی ریل گاڑی میں سفر کر رہا تھا کہ اس کے ساتھ والی نشست پر جو بیٹھا تھا وہ بھی پٹیالہ ہی کا رہنے والا تھا۔ ایک نے ہمت کر کے بات شروع کی۔ وہ تو پٹیالے کی مخصوص زبان میں سناتے تھے (میں اردو میں لکھ رہا ہوں) آپ پٹیالے کے ہیں؟دوسرے نے کہا: ہاں۔ باتیں کرتے کرتے پتہ چلا کہ
محلہ بھی دونوں کا ایک ہی ہے مگر آخر میں جس نے بات شروع کی‘ اس نے کہہ دیا کہ وہاں بڑی مسجد ہے۔ دوسرے نے کہا :ہاں رہی جو ایک تندور کے ساتھ بنی ہے‘ پہلا کچھ سوچ میں پڑ گیا اور بولا: کون سا تندور؟ بس اس کا یہ کہنا تھا کہ دوسرے نے یہ کہتے ہوئے منہ دوسری طرف کر لیا ” تاہیں تاں میں نا باقف گیل گل نہیں کروا‘‘ یعنی تبھی تو میں ناواقف آدمی کے ساتھ بات نہیں کرتا۔ہم سب ہنستے تو وہ سائیکل کے کیریئر سے ”پارس‘‘ جو ایک ورق پر مبنی ہوتا تھا اس کی چند کاپیاں اٹھا کر ہم لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیتے اور ساتھ بولتے جاتے: رکھ لیں جی‘ چاہے تو پڑھ لیں نہیں تو کسی اور کو دے دیں۔ مسکراتے ہوئے اپنے سائیکل گھسیٹتے آگے چلے جاتے۔ایسے لوگ اپنے مشن میں اس قدر مخلص ہوتے ہیں کہ اپنی زندگی تک گزار دیتے ہیں۔ برسوں بعد جب میں ریڈیو لاہور میں ملازم تھا تو میں نے نیلا گنبد کے علاقے میں ڈاکٹر غفار کو دیکھا۔ رال بہہ رہی تھی اور بھیک مانگ رہے تھے۔ نہ سائیکل تھی نہ ”پارس ‘‘اخبار تھاالبتہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا بلیزر پھٹی پرانی حالت میں پہنا ہوا تھا۔ میں نے وہاں ایک ریسٹورنٹ میں ان کو بٹھا کر کھانا کھلایا۔ پھر پوچھا: آپ کو یاد آیا میں کون ہوں؟ کچھ یاد نہیں تھا‘ پاگلوں کی سی ہنسی ہنس کر بولے :کچھ روپے بھی دے دو۔ میرے پاس کچھ روپے تھے میں نے دے دیے اور ہم ریسٹورنٹ
سے باہر آ گئے باہر نکلتے ہی وہ انارکلی کی طرف روانہ ہو گئے۔ایک کردار ہوتا تھا ڈاکٹر سلیم واحد سلیم۔ موصوف پاگل ہو چکے تھے اور سمجھتے تھے کہ سی آئی ڈی کے لوگ ان کا پیچھا کررہے ہیں۔ وہ سڑک کے ایک طرف ہوں تو ہم دوسری طرف جا کر آوازیں لگاتے تھے۔ وہ ہم لوگوں کو سی آئی ڈی والوں کے غنڈے سمجھتے تھے اور ہمیں پتھر مارتے تھے۔ فارسی میں کچھ بولتے تھے‘ بعد میں پتہ چلا فارسی میں گالیاں دیتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ سیالکوٹ میں ہومیوپیتھی کی پریکٹس کرتے تھے کہ کوئی ایسا کام سرزد ہو گیا جو بہت ہی گھنائونا تھا۔ قسمت سے پولیس کے پنجے سے تو بچ گئے مگر احساسِ جرم نے نیم پاگل کردیا تھا۔
ایک مرتبہ ہم کچھ غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ انگریزی بولنے کی پریکٹس کر رہے تھے تو سامنے سے ڈاکٹر سلیم واحد سلیم آ گئے‘ ہمیں دیکھتے ہی سڑک کی دوسری طرف بھاگ گئے اور آواز لگائی: اب میرے پیچھے انگریز لگا دیے ہیں۔ لڑکپن میں بندہ کافی بے حس ہوتا ہے لیکن برسوں بعد میں جب سوچتا تو مجھے ڈاکٹرپر ترس آتا تھا اور اپنے رویے پر افسوس ہوتا تھا۔وائی ایم سی اے ہال میں کبھی کبھی مشاعرہ بھی ہوتا تھا۔ جب مشاعرہ ہوتا ہم سب اکٹھے ہو جاتے تھے اور وہ ہوٹنگ کرتے کہ خدا کی پناہ مگر آخر میں جب نامور شاعر آتے تھے اس وقت ہم خاموش رہتے تھے یا چلے جاتے تھے۔ ادب میں ہم سب شفیق الرحمن کی کتابوں کے دیوانے تھے۔
ایک دوسرے کو تو حماقتیں اور مزید حماقتیں کے پیرا گراف تک زبانی یاد تھے۔شاعروں ادیبوں سب کہ ہم پہچانتے تھے مگر ان کی محفل میں بیٹھنے کے قابل نہیں تھے۔ میری عمر پندرہ سال تھی جب میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا‘ اس عمر میں کیا شاعری کا پتہ چلتا‘ بس شرارتیں تھیں اور شرارتوں ہی کے حوالے سے شفیق الرحمن کی ”میری لائبریری‘‘ کے تحت چھپنے والی سستی کتابیں خرید کے پڑھے تھے یا پھر پیپلز پبلشنگ ہائوس کے ہاں سے سستا روسی لٹریچر ملتا تھا۔ پشکن کے افسانے‘ گوربا چوف وغیرہ کی کتب کے اردو ترجمے خوبصورت کاغذ پر چھپے بہت ہی کم قیمت پر مل جاتے تھے۔
ایک عیاشی جو ہم الگ کرتے تھے وہ پان کھانے کی تھی ‘وہاں نکڑ پر ایک پہلوان کی پان کی دکان تھی‘ اس سے پان لو تو وہ کبھی پان ہاتھ میں نہیں دیتا تھا۔ کہتا تھا منہ کھولو‘ اور خود گاہک کے منہ میں پان ڈالتا تھا۔ اگر کوئی انکار کرے اور خود پنے ہاتھ سے منہ میں ڈالنا چاہے تو اس کو یا تو پان دیتا ہی نہیں تھا یا کہتا تھا کہ میں کاغذ میں باندھ دیتا ہوں اور پھر آپ خود کھول کر اپنے ہاتھ سے کھا لیں۔ ہم لوگ میٹھا پان کھاتے تھے اور پہلوان سے اصرار کرتے تھے کہ ناریل کا میٹھا برادہ زیاہ والے ‘ جب ہم اصرار کرتے تو وہ یہ کہہ کر ہمیں خاموش کر دیتا تھا کہ اگر زیادہ چاہیے تو گھر سے برتن لایا کرو پان میں تو اتنا ہی آتا ہے۔یہاں سے انتظار حسین‘ ناصر کاظمی‘ سب پان کھاتے تھے اور پہلوان ہی ان کے منہ میں ڈالتا تھا۔ یہ اس کا سٹائل کہہ لیں۔