سول مارشل لاء کیا ہے اور اس کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے؟ 2023 کے عام انتخابات کے حوالے سے تہلکہ خیز پیشگوئی کر دی گئی
سول مارشل لاء کیا ہے اور اس کا نفاذ کیسے ہوسکتا ہے؟ 2023 کے عام انتخابات کے حوالے سے تہلکہ خیز پیشگوئی کر دی گئی
ان سوالات کے جواب کسی دانشور، کسی سیاستدان، کسی ڈکشنری، قانون کی کسی کتاب میں نہیں، یہاں تک کہ گوگل کی معلوماتی دنیا کھنگالنے کے باوجود کوئی جواب نہ ملا ۔۔۔ تاریخ خاموش ہے ۔۔۔ البتہ تاریخ کا علم رکھنے والوں کی تحقیق ہے ۔۔۔ کہ یہ کوئی
باقاعدہ طرز حکومت نہیں نامور کالم نگار شکیل انجم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ۔۔!!! بلکہ انداز حکمرانی ہے۔۔۔ یہ نہ جمہوریت کی تابع ہوتی ہے اور نہ فوجی آمریت کی زیر اثر۔۔۔ اس کا انحصار حکمران کے رویے، سوچ، فطرت، دنیا پر راج کرنے کی خواہش اور اس انداز حکمرانی کو ماننے والے شخص یا ادارے کی ذہنیت پر ہوتا ہے۔۔۔یہ انداز حکمرانی نہ آئینی ہوتا ہے اور نہ جمہوری۔۔۔
یہ جمہوریت کی نفی لیکن آمرانہ سوچ کا حامی ہوتا۔۔۔بالفاظ دیگر ۔۔۔یہ جمہوریت اور آمریت کے درمیان کا کوئی خودساختہ نظریہ حکمرانی ہے۔۔۔ جس کے تحت وہ جمہوریت میں ہی اپنی آمرانہ سوچ کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔۔۔وہ صحافت، عدلیہ اور محتسب سمیت تمام ریاستی اداروں کو اپنا تابع دیکھنا چاہتا ہے اور اپنی ہر جائز اور
ناجائز خواہش کو قانونی تصور کر کے اس پر بزور طاقت پورا کرنا چاہتا ہے۔۔۔ایسے سربراہ جمہوری روایات پر یقین نہیں رکھتے۔۔۔بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہے۔۔۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، مسٹر جسٹس اطہر من اللہ نے PECA کیس کی سماعت کے دوران آمرانہ سوچ کی وضاحت یہ کہہ کر کی کہ ”
صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون کو ڈریکونین بنا دیا۔۔۔حکومت تنقید سے کیسے مبرا ہو سکتی ہے۔۔۔حکومت کو اتنی کیا جلدی تھی کہ PECA کا بل ترمیم کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی بجائے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کر دیا۔۔۔” یہی سول مارشل لاء یا آمرانہ جمہوریت کی تشریح ہو سکتی ہے۔۔۔یہ وہ انداز حکمرانی ہے جس میں حکومت میں آنے سے پہلے اور
اقتدار حاصل کرنے ‘ کے بعد سوچ، رویے اور سیاست کے ضابطوں میں واقع تضاد نظر آتا ہے۔۔۔اقتدار میں آنے سے پہلے، کیا پارلیمنٹ، سپریم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توہین درست عمل تھا؟ بجلی کے بل سرعام جلا کر عوام کو ٹیکس ادا نہ کرنے پر اکسانے کا فعل ٹھیک تھا؟ کیا ریاستی ٹیلیویژن سٹیشن پر یلغار کر کے یہاں کے سرکاری ملازمین کو یرغمال بنانے کی حرکت جائز تھی؟ کیا تقریروں میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف غیر مہذب الفاظ کا استعمال درست تھا؟ اور کیا اقتدار حاصل کرنے سے پہلے اور حکومت میں آنے کے بعد جعلی یا فیک خبریں پھیلانے کی موجد برسر اقتدار حکومت کے وزراء نہیں تھے؟
اور وہ تمام غیر مہذب اور غیر قانونی اقدامات جو اقتدار حاصل کرنے سے پہلے ان کے لئے جائز تھے، اقتدار میں آنے کے بعد غیر مہذب اور غیر قانونی کیسے ہو سکتے ہیں۔۔۔اب انہیں مزاحمتی صحافیوں یا ان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو PECA کے قانون میں ترامیم کر کے اسے ڈریکونین بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔۔۔ایسا کیوں ہے کہ جس غیر قانونی عمل کو یہ درست سمجھتے تھے۔۔۔
اب وہی فعل غلط اور غیر قانونی ہو گیا پے؟۔۔۔ کیوں حکومت اور اس سماج دشمن حرکتوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور ناقدین کی زبانیں بند کرنے کےلئے صدارتی آرڈیننسز کے غیر جمہوری راستے کا انتخاب کرنا پڑا۔۔۔کیا حکومت نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اب ان کی جڑیں عوام میں نہیں۔۔۔اسی لئے غیر جمہوری راستہ ہی ان کی بقاء کا ضامن ہے۔۔۔اور یہی سول مارشل لاء کی
تشریح اور تعریف ہے۔۔۔ اور یہ انداز حکمرانی اسی طرح نافذ ہوتی ہے جیسے موجودہ دور اقتدار میں کی گئی ہے۔۔۔!انداز حکمرانی کے آغاز میں ہی قومی اور ریاستی اداروں کو اس طرح استعمال کیا گیا کہ عوام میں ان کی اہمیت، وقعت اور اعتماد رفتہ رفتہ ختم ہوتا گیا۔۔۔ کیونکہ عوام نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ادارے ریاستی نہیں بلکہ حکومتی ہیں اور یہ عوام کے لیے نہیں حکومت کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔۔۔ادارے تنزلی کا شکار ہوتے اور عالمی تنقید کا نشانہ بنتے چلے گئے۔۔۔احتساب اور انصاف کے اداروں کو عزت و تکریم دینے کی بجائے انہیں بے آبرو اور بے توقیر کیا گیا۔۔۔وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف۔آئی۔اے) اور پولیس سمیت قومی اور ریاستی اداروں کو مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی کہ ان کے خلاف زبان کھولنے والوں کے خلاف تادیبی کاروائی کرتے ہوئے انہیں نشان عبرت بنا دیں تاکہ مستقبل میں اس طاقتور حکومت کے سامنے زبان کھولنے کی جرآت نہ کر سکیں ۔۔۔یہ سب ادارے حکومت کی شہہ پر مزاحمتی صحافت کے خلاف صف آراء ہو گئے، عدالتوں میں
مقدمات کرا دائر کر دئیے، ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ نے تنقید کرنے والوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کیں۔۔۔ مقدمے درج کئے اور عدالتوں میں لے گئے۔۔۔کچھ حالات کے مارے صحافی خاموش ہو گئے اور کچھ ڈٹ گئے۔۔۔یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ خطرناک حد تک آگے بڑھ گیا۔۔۔یہ جنگ ذاتی انتقام کی شکل اختیار کر گئی۔۔۔حکومت نے صحافیوں اور صحافتی اداروں کے گرد گھیرا اس قدر تنگ کر دیا کہ صحافیوں کو ملازمتوں سے نکالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پورے ملک میں دس ہزار اخباری کارکنوں کو فارغ کر دیا گیا۔۔۔
جو بیروزگاری کے ایک طوفان کی شکل اختیار کر گیا۔۔۔یہ کیفیت تا حال قائم ہے، جس نے ’’سول مارشل لاء‘‘ کو معنی پہنائے۔۔۔حکومت کی جانب سے PECA کے کالے قانون میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین لاء بنانے کی کوشش کے خلاف ملک بھر کے صحافی ایک بار پھر صف آرا ہو گئے ہیں۔۔۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) نے حکومت کی اس حرکت کے خلاف ملک گیر تحریک کا آغاز کر دیا ہے
جس کی ابتدا سوموار کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے ’’یوم سیاہ‘‘ کی صورت ہیں ہو گیا ہے۔۔۔کاش! یہ حکومت مزاحمتی صحافیوں کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کرنے کی بجائے جمہوری طور طریقوں قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی اور عوام کی طاقت پر انحصار کرتی تو اقتدار میں قائم رہنے کے لیے کسی قوت کے محتاج نہ رہتے ۔۔۔ لیکن ریاستی طاقت کے زور پر بے بس، بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کے مارے لوگوں پر حکمرانی کرنا شائد ان کے منشور میں شامل تھا۔۔۔