انا للہ وانا الیہ راجعون ‘ ملک ریاض کی دنیا ہی اجڑ گئی
انا للہ وانا الیہ راجعون ملک ریاض کی دنیا ہی اجڑ گئیاسلام آباد (نیوز ڈیسک) بحریہ ٹاؤن کے
چیئر مین ملک ریاض کی ہمشیرہ انتقال کر گئیں ۔ وہ میجر عامر کی والدہ تھیں ۔ملک ریاض کی ہمشیرہ کے انتقال پرپاکستان کے سیاسی و سماجی
حلقوں نے اظہار افسوس کیا ہے اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے ۔
ان کی نماز جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا ۔ ملک ریاض: کلرک سے کھرب پتی تک چند ہفتے پہلے میں نے دھوتی کُرتا پہنے ایکادھیڑ عمر شخص کو
ایک دکان سے قلفی لے کر کھاتے دیکھا۔ وہ قلفی اسے کچھ پسند نہیں آئی لیکن پندرہ روپے کی قلفی پھینکنے کی بجائے اس نے اپنے پیچھے کھڑے گن مین کو پکڑا دی۔
وہ شخص بحریہ ٹاؤن کا مالک ملک ریاض حسین تھے جن پر الزام ہے کہ وہ لوگوں کو کروڑوں روپے بطور’تحفہ‘ ہی دے دیتے ہیں۔ملک ریاض حسین کبھی ایک کلرک ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ کھرب پتی بن چکے ہیں اور ان کا دولت کمانے کا سفر جاری ہے۔تریسٹھ سالہ ملک ریاض ایک ٹھیکے دار کے گھر پیدا ہوئے اور والد کے کاروبار میں خسارے کے بعد میٹرک پاس ملک ریاض حسین کو کلرک کی نوکریکرنا پڑی۔ بعد میں فوج میں ایک نچلے درجے کے ٹھیکے دار کی حثیت سے کاروبار کیا۔یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ وہ اپنے تقریباً ہر انٹرویو میں اپنے اس دور کی تکالیف ضرور بیان کرتے ہیں۔ ان تکالیف میں بچی کے علاج کے لیے گھر کے برتن فروخت کرنا، خود قلعی یعنی سفیدیاں کرنا اور سڑکوں پرتارکول لگانا جیسے واقعات شامل ہیں۔ وہ اپنی مرحوم بیوی کی اس حسرت کا بھی اظہار کرتے ہیں جو ایک پانچ مرلے کی مالکانہ حقوق پر مشتمل تھی۔پاکستان میں نوے کی دہائی میں جب جمہوری حکومتیں گرائی جارہی تھیں تب ملک ریاض نے یہ بھانپ لیا تھا کہ کاروبار میں فوج کا ساتھ بہت سود مند ثابت ہوگا ۔اب اسے چالاکی کہا جائے یا ذہانت جیسا مثبت لفظ استعمال کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہمعمولی تعلیم اور دیہاتی حلیے والے اس آدمی نے بڑے بڑے فوجی افسروں کو پیسے کمانے کے منصوبے پیش کیے
۔ملک ریاض کے خلاف مقدمات کا پیروی کرنے والے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں ملک ریاض اور اس وقت کے نیول چیف ایڈمرل فصیح بخاری کے ساتھ معاہدوں کی تصدیق شدہ نقول عدالت میں داخل کرائی ہیں۔ معروف عسکری تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کے بعض فوجی افسروں نے زمینیں خریدنے میں ملک ریاض کی بے حد مدد کی ہے اور اس کے عوض ان افسروں کو طے شدہ حصہ ملا۔کامیابی کا پہلا بڑا قدم وہ تھا جب نیوی نے راولپنڈی کے ہاؤسنگ پراجیکٹ سے توہاتھ کھینچ لیا لیکن وہ اپنا نام اس رہائشی سکیم سے واپس نہ لے سکی ۔ملک ریاض کا تیز دماغ ایک کے بعد ایک منصوبہ بناتا چلا گیا۔ ہاؤسنگ سکیم کے کسی بھی فیز یا سیکٹر کا اعلان ایسی صورت میں کیا جاتا رہا کہ اس سکیم کا زمین پر وجود ہوتا نہ کوئی نقشہ تک ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود صرف درخواست فارم خریدنے کے لیے لوگ دیوانوں کی طرح لائن میں لگتے دھکم پیل کرتے اور لاٹھی چارج اور آنسوگیس کے باوجود ہٹنےکو تیار نہ ہوتے۔ایک پیسے پیسے کو محتاج شخص پندرہ سے بیس سال کے عرصے میں کھرب پتی بن چکاہے ۔اس عرصے میں ملک ریاض پر مختلف مقدمات درج ہوئے جن میں غریب اور کم زور لوگوں کو قتل کرانے، ان کی زمینوں پر قبضے کرنے، لڑائی جھگڑے، دھوکہ دہی سمیت بہت سے مقدمات ہیں جو مختلف عدالتوں میں زیر سماعت اور بہت سے مقدمات سے وہ بری ہوچکے ہیں۔وہ ملک ریاض جو معمولی سا ٹھیکہ لینے کے لیے دو دو روز تک کسی کیپٹن یا میجر کے دفاتر کے باہر بیٹھا رہتا تھا اب ان سے کہیں بڑے فوجی افسر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک ریاض کے تنخواہ دار ملازم ہیں۔