“عطیہ فیضی اور شاعر مشرق اقبال”تاریخ کے اوراق میں۔۔۔۔عطیہ فیضی نے علامہ اقبال کی رہنمائی کس طرح کی،،دونوں کی ملاقات کب ہوئی ؟؟؟چشم کشاء انکشافات سے بھرپور تحریر
علامہ اقبال کو جرمنی سے واپسی پر برصغیر کے دو اعلیٰ پائے کے تعلیمی اداروں سے منسلک ہونے کی پیشکش ہوئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور نے انہیں فلسفے کے پروفیسر کی ملازمت کا عندیہ دیا۔ اقبال نے اس پیشکش پر وکالت کو ترجیح دی۔
سید صفدر گردیزی اردو پوائنٹ پر لکھتے ہیں ابتدائی دو برسوں میں انہیں احساس ہو گیا کہ وکالت سے ان کی معاشی زندگی میں استحکام نہیں آ سکتا۔ ایسے میں انہوں نے ریاست حیدرآباد سے وابستہ ہونے کا ارادہ کیا۔ اسی سلسلے میں وہ 1907 میں ریاست کے وزیر خزانہ سر اکبر حیدری کے مہمان کی حیثیت سے کئی دن ریاست میں مقیم رہے۔ لاہور واپسی پر انہیں یکے بعد دیگرے دو خطوط موصول ہوتے ہیں۔ جن میں اس مجوزہ خیال پر ان کی سخت سرزنش کی گئی تھی۔ خود اقبال نے اس دوستانہ تنبیہہ کو ’میٹھی جھڑکیوں‘ اور ’ملامت نامہ‘ جیسے لفظوں سے یاد کیا ہے۔ خدا جانے خطوط میں کی گئی سرزش کا اثر تھا کہ کوئی اور وجہ اقبال اپنے ارادے سے باز رہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ حیدر آباد کی سرکاری ملازمت میں چلے جاتے تو شاید اقبال نہ ہوتے۔ شاعر مشرق کے ارادوں کے راستے میں مزاحم ہونے والی یہ ہستی عطیہ فیضی تھی۔ انہیں اندیشہ تھا کہ حیدرآباد جا کر اقبال اپنی ترجیحات اور توانائیوں کو کسی معمولی کام میں صرف نہ کر دیں۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں کسی مسلم خاتون کی ایسی بصیرت اور اثرپذیری غیر معمولی بات تھی۔ عطیہ کا تعلق اس دور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال خاندان سے تھا۔ ان کی بڑی بہن نازلی بیگم ریاست جنجیرہ کی رانی تھی۔ جبکہ ریاست حیدرآباد کے وزیر خزانہ ان کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ علم و فضل کی رسیا اور برصغیر کی نامور ہستیوں سے بے تکلفانہ تعلق رکھنے والی بیگم عطیہ فیضی چار جنوری 1967 کو کسمپرسی، ناقدری اور شکستگی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئی۔
ثقافت اور جمالیات کی لاڈلی عطیہ بیگم کو ان حالات سے دوچار کرنے والے عناصر اور حالات کے تذکرے سے پہلے ان کی خیرہ کن زندگی کا بیان ہو جائے۔عطیہ فیضی نے 1877 میں ہندوستان کے ایک عرب نژاد خاندان میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد حسن آفندی کو سلطنت عثمانیہ کے دربار تک رسائی حاصل تھی۔ جن کا کاروبار ہندوستان عراق اور استنبول تک پھیلا ہوا تھا۔اس دور کے اعلیٰ پائے کے تعلیمی اداروں سے تحصیل علم کی وجہ سے انہیں انگریزی، عربی، فارسی، ترکی اور اردو زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔بیسویں صدی کے آغاز پر جب ہندوستان میں لڑکیوں کی تعلیم خال خال تھی انہوں نے حصول علم کے لیے برطانیہ کا سفر کیا۔ خاندانی اثر و رسوخ اور ذہانت کی بدولت عطیہ فیضی نے جلد ہی انگلستان کی ہندوستانی کمیونٹی میں اپنی جگہ بنا لی۔لندن میں ان کے شب و روز نامور ہندوستانی شخصیات کی معیت میں گزرتے تھے۔ ٹاٹا کمپنی کے بانی جمشید جی ٹاٹا، سروجنی نائیڈو کے علاوہ ہندوستانی ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کے ساتھ ان کی صحبتیں رہنے لگی،گاندھی جی سے منفرد انداز سے آٹو گراف لینے کا واقعہ شاعر اور نثر نگار ماہرالقادری نے اپنی کتاب ’یاد رفتگاں‘ میں بیان کیا ہے۔
بیگم عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خطوط کو انہوں نے ’اقبال‘ کے نام سے 1947 میں کتابی شکل دی۔ اقبال کی ذاتی اور شخصی زندگی کی تفہیم اور تشریح کے لیے اس کتاب میں بہت سا سامان موجود ہے۔ 1907 میں انہوں نے اقبال کی دعوت پر کیمرج کا دورہ کیا۔ لندن میں ہونے والی علمی محافل اور تفریحی پارٹیوں میں اقبال کی خوش مزاجی کے واقعات شاعر مشرق کی ذاتی دلچسپیوں کا خوبصورت بیان ہے۔
اپنے بھائی کے ہمراہ عطیہ فیضی کا جرمنی کے سفر میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اقبال کی تعلیمی اور تفریحی مصروفیات اور مشاغل کا پرلطف ذکر قاری کو ایک نئے اقبال سے آشنا کرتا ہے۔ اقبال پر ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ شدید یاس و قنوطیت کا شکار تھے۔ انہوں نے اپنی کیفیات اور ذاتی احساسات عطیہ فیضی کے نام خطوط میں بیان کیے۔ بقول جسٹس ایس اے رحمان اقبال کے پرستاروں کو عطیہ بیگم کا احسان مند ہونا چاہیے۔ ان کے تشفی امیز طنز کے زیر اثر وہ اپنی زندگی کے نازک موڑ پر رجائیت کی طرف واپس پلٹے۔
عطیہ فیضی کی روز افزوں مقبولیت کا اثر تھا کہ ہندوستان کی بڑی علمی اور ادبی شخصیات ان کی جانب کھینچی چلی آتی تھی۔ معروف صحافی نصراللہ خان جن کو ریڈیو پاکستان کے لیے عطیہ فیضی کا انٹرویو کرنے کا بھی موقع ملا، کی تصنیف ’کیا قافلہ جاتا رہا‘ میں عطیہ فیضی کے کمالات فن کا تذکرہ قلمبند کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ قلوپطرہ اور عطیہ فیضی کی داستان میں بہت ساری مماثلتیں ہیں۔ ایک ریاست کی حاکم تھی تو دوسری دلوں کی ملکہ۔ قلوپطرہ کی محبت میں سیزر اور انٹونی بری طرح پھنسے۔ عطیہ بیگم کی زلف گِرہ گیر کے گرفتار بڑے بڑے دانشور تھے۔