in

سانحہ مری:گمنام ہیرو کا وہ کارنامہ جس نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کردیا

سانحہ مری:گمنام ہیرو کا وہ کارنامہ جس نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کردیا

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) مری میں اس وقت موسم صاف ہے، ہلکی ہلکی دھوپ نکلی ہوئی ہے اور سڑکوں پر اکا دکا گاڑیوں کے علاوہ یہ کافی حد تک سنسان ہو چکی ہیں لیکن گھبراہٹ طاری کر دینے والے سکوت میں کسی سڑک کے اطراف برف میں پھنسی گاڑی سے ہی اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ یہاں جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب ایک سانحہ رونما ہوا تھا۔

یہاں سیاح اب بھی واپسی کے لیے کوشاں ہیں لیکن ٹریفک اہلکار بتاتے ہیں کہ جو راستے کھولے گئے ہیں آپ انھیں مکمل طور پر ’کلئیر‘ قرار نہیں دے سکتے اور نہ ہی مزید سیاح مری کا رخ کر سکتے ہیں۔ ٹول پلازے پر درجنوں ٹریفک پولیس اہلکار ڈیوٹی دے رہے ہیں تاکہ سیاح مری نہ جا پائیں لیکن ٹی وی اور سوشل میڈیا پر اب بھی الزام تراشی اور اس سانحے کے اصل ذمہ داران کی کھوج لگانے کی بحث جاری ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مری کے دورے پر ہیں اسلام آباد کی فضا میں ہیلی کاپٹروں کی آوازیں وقفے وقفے سے سنائی دے رہی ہیں۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں مرنے والوں کے جسد خاکی پہنچ چکے ہیں۔ لیکن سوال اب بھی وہیں کا وہیں ہے، جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب مری میں تفریح کی غرض سے آئے سیاحوں کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ یہ ایک سانحے میں تبدیل ہو گیا۔ بی بی سی نے مقامی افراد، انتظامیہ، ٹریفک پولیس اور اس شب مری میں پھنسے ہوئے سیاحوں سے بات کر کے اس سوال کے ممکنہ جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔’نہ برفباری رکی اور نہ ہی گاڑیاں چل پائیں‘آٹھ نومبر کو برفباری سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں ایک اجلاس ہوا تھا۔

جس میں ہر ادارے کے لوگ موجود تھے جہاں تفصیلی بات چیت کی گئی تھی کہ کس ادارے نے کیا کرنا ہے۔اس اجلاس کی تصدیق مری میں سرکاری ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر عبدالسلام نے بی بی سی کو ایک انٹرویو کے دوران کی ہے۔انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں خود اس میٹنگ میں شریک تھا اور ہم نے برفباری کے بعد صورتحال کو دیکھتے ہوئے تین پوائنٹس پر میڈیکل کیمپ بھی لگائے۔‘تاہم مری کے مکین بتاتے ہیں کہ مری میں ہونے والے سانحے کی بنیاد جمعے کی صبح ہی سے رکھ دی گئی تھی۔ مقامی لوگوں، پھنسے ہوئے سیاحوں اور مری کے تاجروں کے مطابق جمعے کی صبح ہی سے مری میں بدترین ٹریفک جام دیکھنے کو ملا۔مری میں کل تین ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ ہے لیکن اس روز کے اعدادو شمار کے مطابق 30 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئی تھیں۔ اور ان گاڑیوں میں موجود لوگوں کی تعداد کا اندازہ لگائیں تو بات کئی ہزار تک پہنچتی ہے۔مری و راولپنڈی اور ایبٹ آباد پولیس کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس مری اور گلیات میں ٹریفک بلاک، رش اور برفباری کی صورتحال پر جمعرات کی شام ہی سے رپورٹس تیار کر کے ارسال کرتی رہی۔

کہ صورتحال اچھی نہیں۔ذرائع کے مطابق برفباری تو کئی روز سے جاری تھی لیکن جمعے کی صبح ایک بار پھر اس کا آغاز ہوا۔’دس بجے برفباری شروع ہوئی اور لوگ سڑک پر گاڑیاں کھڑی کر کے سیلفیاں بنانے لگے، مشینری پیچھے پھنس گئی، نہ برفباری رکی اور نہ گاڑیاں چل پائیں۔‘بی سی سی نے اسسٹنٹ کمشنر مری، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور وزیر داخلہ شیخ رشید سے رابطہ قائم کیا مگر انھوں نے جواب نہیں دیا۔حکومت کی جانب سے سیاحوں کی مری میں داخلے پر پابندی کا اعلان رات نو بجے ہوا لیکن تب تک شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔ نہ آگے جانے والے پیچھے لوٹ سکتے تھے اور نہ مری جانے والی اضافی گاڑیوں کو روکا جا سکتا تھا۔’جنگلات والوں نے، نہ ہی سالٹ کلیئرنس کے عملے نے کوئی مدد کی‘تاہم اس واقعے کا پسِ منظر بھی خاصا اہم ہے، کچھ روز قبل یعنی پانچ جنوری کو محکمہ موسمیات نے مری میں شدید برفباری کا انتباہ جاری کر دیا تھا۔اسی روز ہمیں اسسٹنٹ کمشنر مری عمر مقبول اور ایس ایس پی ٹریفک سڑک پر کھڑے ٹریفک کو کنٹرول کرتے اور صورتحال کا جائزہ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔سات جنوری کی شام بھی وہ ہمیں شاہراہ پر ہی کھڑے دکھائی دیے۔

لیکن ایسا کیا ہوا کہ نہ تو ٹول پلازہ سے آنے والوں کو روکا جا سکا اور نہ مری کی مختلف شاہراہوں پر کئی کلومیٹر لمبی قطاروں میں لگی گاڑیوں میں موجود انسانوں کی بروقت مدد ہوئی۔مری سے ایک ٹریفک پولیس کے اہلکار قیصر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے جمعے کی شام تین بجے سے ریسکیو آپریشن شروع کر دیا تھا۔‘وہ اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ریسکیو میں بہت مشکلات تھیں۔ چار چار فٹ برف پڑ چکی تھی۔ ویسے تو یہ ہوتا ہے برف پڑتی ہے، رکتی ہے اور بارش ہوتی ہے تو سب صاف ہو جاتا ہے اور مشینری بھی آ جاتی ہے لیکن اس روز مشینری جب تک سنی بینک ہیڈ کوارٹر تک پہنچتی تب تک بہت زیادہ گاڑیاں سڑک پر آ چکی تھیں اور ڈبل لائن میں مشینری کی جگہ تھی ہی نہیں۔‘ٹریفک وارڈن قیصر کہتے ہیں کہ ’برفباری کتنی ہی ہو اور ٹریفک کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے ہم نہ ٹول پلازہ بند کر سکتے ہیں اور نہ سیاحوں کو روک سکتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں یہ حکومت کا کام ہے اور حکومت نے دوسرے دن ٹول پلازے کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔‘قیصر کے علاوہ ہماری ایک اور ٹریفک پولیس اہلکار سے بھی بات ہوئی۔

ان دونوں کا مری میں ٹریفک کنٹرول کا چند سالوں کا تجربہ ہے اور وہ شکایت کرتے ہیں کہ ہائی وے والے ہماری درخواست کے مطابق مشینوں کے لیے ڈمپنگ پوائنٹ نہیں بناتے، مشینیں سنی بینک میں ہوتی ہیں اور اس روز بھی جب حالات خراب ہو گئے تو مشین کے وہاں تک تک پہنچنے میں بہت دیر ہو گئی۔وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے کو ان جی پی او چوک، جھیکا گلی اور باڑیاں میں پوائنٹ بنانے کا کہا لیکن وہ سنی بینک کے قریب اپنے ہیڈ کوارٹر پر ہی انھیں رکھتے ہیں ہم ہائی وے والوں کو کالز کرتے رہے لیکن جنگلات والوں نے، نہ ہی سالٹ کلیئرنس کے عملے نے کوئی مدد کی۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’اب بھی ایک سے دو سو تک گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔ باقی ساری لائنز کلیئر ہیں لیکن لنک روڈ ابھی کلیئر نہیں ہوئی۔ باڑیاں کو کلیئر کر رہے ہیں جہاں 200 گاڑیاں پھنسی ہیں لیکن ان میں بھی ڈرائیور موجود نہیں۔‘’پہلے مشینیں حرکت نہیں کر پا رہی تھیں۔۔۔ شدید برفباری ہوئی تو اہلکار بھی حرکت کے قابل نہ رہے‘تاہم باڑیاں سے نتھیا گلی تک کیا صورتحال تھی اور اب وہاں کیا ہو رہا ہے اس حوالے سے کچھ تصدیق نہیں کی جا رہی۔ مری میں ریسکیو 1122 کے کنٹرول روم کے مطابق انھیں مدد کے لیے پہلی کال سنیچر کی صبح آٹھ بجے موصول ہوئی۔

ادارے کا کہنا ہے کہ اس وقت چار ٹیمیں جو کہ 12، 12 اہلکاروں پر مشتمل ہیں، لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ڈیوٹی پر موجود ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے سارا ریسکیو ورک پیدل چل کر کیا کیونکہ گاڑیاں حرکت نہیں کر سکتی تھیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیمیں گلڈنہ سے باڑیاں، جھیکا گلی سے لوئر ٹوپہ، جھیکا گلی سے پی سی بھوربن، لارنس کالج بائے پاس تک موجود ہیں۔یہ ٹیمیں لوگوں کے گھروں میں موجود سیاحوں کو بھی ریسکیو کر رہی ہیں تاہم مری ریسیکو 1122 کے میڈیا کوارڈنیٹر قمر کا کہنا تھا کہ بے انتہا ٹریفک اور برفباری اس سانحہ کا سبب بنا۔وہ کہتے ہیں کہ ریسکو 1122 کے اہلکار جمعہ کی رات دیر تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ کئی افراد کو ہم نے محفوظ مقامات تک منتقل کیا تھا۔ مگر روڈ بلاک ہونے کی وجہ سے مشینیں حرکت نہیں کر پا رہی تھیں۔ جس کے بعد رات بارہ بجے شدید برفباری ہوئی تو ہمارے اہلکار بھی حرکت کرنے کے قابل نہیں رہے۔‘مقامی افراد نے لوگوں کو اپنے گھروں میں پناہ دی محمد صابر گلڈنہ کے پاس ہی رہائش پذیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ اچانک ہوا ہو۔ جمعہ کی صبح ہی سے یہ سب شروع ہو چکا تھا۔

روڈ بلاک ہو چکا تھا۔ برفباری جاری تھی۔ گاڑیاں ٹکرا رہی تھیں۔ پھسلن کا شکار تھیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب کو سمجھ میں آرہا تھا کہ اگر یہ ہی صورت حال رہی اور دن دن میں لوگوں کو نہ نکالا گیا تو پھر رات کو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ دن کی روشنی میں ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آئی جس کے بارے میں کہا جائے کہ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کوئی فعال تھا۔‘محمد صابر کہتے ہیں کہ ’ہمارے علاقوں میں لوگ سردیوں میں ایبٹ آباد، راولپنڈی اور اسلام آباد کا رخ کرلیتے ہیں۔ اس وجہ سے مقامی علاقوں میں زیادہ انفرادی قوت بھی دستیاب نہیں تھی۔ رات کے وقت کوئی آٹھ بجے کے بعد مقامی لوگوں کو یہ سمجھ میں آنا شروع ہوا کہ گاڑیوں کی لمبی لائنوں میں موجود سیاحوں کی زندگیاں خطرے کا شکار ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد برف باری میں مقامی لوگ باہر نکلے۔ ہم لوگ جانتے ہیں کہ یہ برفباری خطرناک ہے اور رات کو باہر نکلنا انتہائی خطرناک ہے مگر مقامی لوگ سیاحوں کو بچانے کی کوشش کا آغاز کر چکے تھے۔گاڑیوں میں موجود لوگوں کو ہم نے اپنے گھروں اور مساجد میں منتقل کرنا شروع کر دیا تھا۔ کئی لوگوں اور خاندانوں کو منتقل کیا گیا مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو کہہ رہے تھے۔

کہ وہ اپنی گاڑی میں زیادہ محفوظ اور خوش ہیں اور انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہے کھانے پیسے اور پانی بھی موجود ہے۔محمد صابر کے مطابق گیارہ بجے تک صورتحال یہ ہو گئی کہ روڈ پر تین سے پانچ فٹ برف پڑ چکی تھی۔ اس برف باری میں چلنا بھی ناممکن ہو چکا تھا۔ جس کے بعد مقامی لوگ بھی اپنے گھروں کو واپس ہو گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد رات بارہ بجے کے بعد شدید برف باری ہوئی اور بجلی بھی چلی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایسی برفباری تھی جو ہم نے اپنی زندگیوں میں کم ہی دیکھی تھی۔ اس برفباری میں کئی گاڑیاں برف ہی میں دبی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔پرانا ون وے ختم کر دیا گیا تھا’مری کے مقامی افراد اس صورتحال کی ایک وجہ پرانے ون وے کو ختم کرنا بھی بتاتے ہیں۔بحالی کے کاموں میں مصروف سماجی کارکن ماجد عباسی کے مطابق ’سب سے متاثرہ علاقہ مری شہر سے چند کلو میڑ دور ایبٹ آباد روڈ کی جانب گلڈنہ کا علاقہ تھا۔ جس میں کالی مٹی والے مقام پر زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس کے بعد جھینگا روڈ پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔‘ماجد عباسی اور دیگر مقامی افراد گل فراز عباسی، محمد صابر اور دیگر کے مطابق کوئی شک نہیں کہ طوفانی برف باری، بے انتہا ٹریفک اور بدترین ٹریفک جام چند وجوہات میں سے ہیں۔

تاہم ان کے مطابق ایک اور وجہ مری میں موجود سالوں پرانا ون وے بھی چند ہفتے قبل اچانک ختم کر دینا ہے۔گل فراز عباسی کے مطابق ’کافی عرصے سے گلڈنہ سے لے کر جی پی او چوک مری تک ون وے ٹریفک تھا۔ گاڑیاں صرف ایک طرف سے داخل ہو سکتی تھیں۔ جس سے مری میں ٹریفک کسی نہ کسی حد تک چلتی ہی رہتی تھی۔ مگر چند ہفتے قبل اس ون وے کو اچانک ختم کر دیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے مقامی افراد نے بڑی مایوسی کا اظہار کیا تھا اور یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ ون وے ٹریفک کو بحال رکھا جائے۔ ون وے ٹریفک نہیں ہو گا تو ٹریفک اکثر جام ہی رہے گا مگر اس مطالبے پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اس مقام پر اکثر ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے تھے۔‘گل فراز عباسی کہتے ہیں کہ ’جمعے کی صبح شدید برف باری کے باعث یہی مقام گلڈنہ ٹریفک بلاک کا سبب بنا تھا۔‘ماجد عباسی کہتے ہیں کہ جمعے کی صبح ہی سے وقفے وقفے سے سڑکوں پر مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ برفباری کے دوران مشنیوں کے برف ہٹانے کا کام کوئی زیادہ فائدہ مند تو ہو نہیں سکتا مگر مشینیں ایک سہارا ضرور ہوتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’جمعے کی دوپہر جب مری میں گاڑی کے ساتھ گاڑی لگ گئی۔

کوئی گاڑی کیا چلتی پیدل چلنا بھی دشوار ہو گیا تو یہ مشنیں بھی کھڑی ہو گئیں۔ ان کے لیے بھی کوئی راستہ نہیں تھا۔ جس کے بعد کم از کم ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اب برف صاف کرنے کا کام ممکن نہیں رہا۔‘جب ہوٹل والوں نے 50 ہزار روپے کرایہ مانگا سرگودھا سے اپنے خاندان کے ہمراہ اتوار کی صبح تک مری میں پھنسے ہوئے سیاح ملک توقیر حسین کا کہنا تھا کہ وہ جمعرات کے روز اپنے چار بچوں اور بیگم کے ہمراہ مری پہنچے تھے۔ بچوں کو برفباری دیکھنے کا شوق تھا۔ میں نے اپنی طرف سے اچھا فیصلہ کیا کہ ویک اینڈ پر نہیں جاتے پہلے جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے جمعرات کا روز مری میں گزارا اور جمعہ کے دن بارہ بجے ہوٹل سے چیک آؤٹ کر کے واپسی کے لیے نکلے۔ گاڑی میں شاید میں نے پانچ منٹ بھی سفر نہیں کیا کہ روڈ بلاک ہو گیا۔ جمعہ کے روز بارہ بجے سے لے کر شام تک گاڑی میں بیٹھا رہا۔‘ملک توقیر حسین کہتے ہیں کہ ’چار بجے تنگ ہوا اور ایک ہوٹل کے ہال میں گئے۔ اس ہوٹل والے نے ہمیں کہا کہ ہم تھوڑی دیر تک تو ہال میں بیٹھ سکتے ہیں زیادہ دیر تک نہیں۔ شدید برفباری کے باعث مجھے اندازہ ہو گیا کہ شاید ٹریفک نہ کھل سکے۔

کیونکہ مجھے روڈ صاف کرنے کی کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی تھی۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں میں نے بیس ہزار روپے دے کر کمرہ حاصل کیا اور اس میں رہائش اختیار کی۔ سنیچر کی صبح جب اٹھے تو ہوٹل مالکان نے مجھ سے کہا کہ اگلے روز کے لیے کمرہ حاصل کریں یا ہوٹل چھوڑ دیں۔ جس پر میں بچوں کو لے کر دوبارہ گاڑی میں آ گیا۔‘توقیر حسین کے لیے اب نئی مشکل یہ تھی کہ ان کی گاڑی میں ایندھن نہ ہونے کے برابر تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ ’میں کین لے کر فیول کے لیے نکل پڑا۔ یہ کوئی شام کا وقت تھا۔ اس موقع پر برفباری تیز ہو رہی تھی۔ واپس آیا تو بچے گاڑی میں نہیں تھے جبکہ گاڑی کے پاس ایک بندہ کھڑا تھا۔ جس نے مجھے بتایا کہ صورتحال خراب ہو رہی ہے۔ بچوں کو محفوظ مقام تک پہنچا دیا ہے آپ بھی چلیں۔‘’رات گزارنے کے لیے اہلیہ کے زیور ہوٹل والوں کو دینے پڑے‘دوسری جانب نیگنہ خان اپنے خاوند کے ہمراہ لاہور سے جمعرات کی صبح مری پہنچی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارا خیال تھا کہ ہم ایک رات مری اور ایک رات گلیات میں گزارنے کے بعد ایبٹ آباد کے راستے واپس لاہور جائیں گے۔ مگر جمعہ کی صبح جب ہم نے گلیات کی طرف سفر شروع کیا۔

تو روڈ مکمل بلاک اور برفباری ہو رہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ہم نے 25 ہزار روپیہ ایک رات کا کرایہ ادا کیا اور رات ہوٹل میں گزاری۔ اب ہم ایک اور ہوٹل میں ہیں۔ جہاں پر ہمیں کھانا پینا اور رہائش فراہم کی جا رہی ہے۔یہ سیاح تو مہنگے کرایہ ادا کرکے چھت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر گلڈنہ روڈ پر کئی سیاح ایسے تھے جن سے پچاس پچاس ہزار روپیہ کرایہ مانگا گیا۔ سیاح منھ مانگے دام دینے کو تیار تھے مگر ان سے کریڈٹ کارڈ بھی قبول نہیں کیا گیا۔ایسی ہی ایک سیاح نصرت جہاں تھیں جو اپنے بچوں اور خاوند کے ہمراہ لاہور سے بدھ کے روز مری پہنچی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا خیال تھا کہ مری میں دو دن گزارنے کے بعد جمعے کو ہم اسلام آباد میں قیام کریں گے۔ مگر ہم نے اپنی زندگی کا وہ لمحہ دیکھا جس میں میں لمحہ بہ لمحہ جیتی اور مرتی رہی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے جب میں اللہ سے دعا کرتی رہی کہ اگر مجھے کچھ ہو بھی جائے تو کم از کم میرے بچے اور خاوند بچ جائیں۔‘نصرت جہاں کا کہنا تھا کہ ’ایبٹ آباد روڈ صبح ہی سے ٹریفک کے لیے بند ہو گیا تھا۔ روڈ پر سے برف صاف نہیں ہو رہی تھی۔ گاڑیاں پھسلن کے سبب سے کھڑی ہو چکی تھیں۔

کئی گاڑیاں ٹکرا چکی تھیں۔ برف تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اس موقع پر میرے خاوند اکبر مصطفیٰ تقریباً دو بجے گاڑی سے نکلے اور قریب کے ہوٹلوں میں گئے۔ ان ہوٹل والوں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس جگہ ہے کیونکہ جن لوگوں نے ویک اینڈ گزارنے کے لیے بکنگ کروا رکھی تھی وہ نہیں پہنچے۔‘وہ بتاتی ہیں کہ ’مگر انھوں نے میرے خاوند سے چالیس سے لے کر پچاس ہزار روپے تک کرایہ مانگا تھا۔ ہمارے پاس کوئی تیس ہزار روپے تھے۔ ان سے کہا کہ یہ تیس ہزار رکھ لو مگر وہ نہیں مانے۔‘نصرت جہاں کا کہنا تھا کہ ’اکبر مصطفیٰ نے کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کا بھی کہا وہ نہیں مانے۔ ہم نے کہا کہ گاڑی، شناختی کارڈ رکھ لو حالات ٹھیک ہوں تو اے ٹی ایم سے پیسے نکال کر دے دیں گے۔ مگر وہ پھر بھی نہیں مانے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جمعے کی رات انتہائی مایوسی کے عالم میں گاڑی میں بیٹھے تھے کہ رات گیارہ بجے کچھ مقامی لوگ ہمیں لے کر اپنی بستی میں چلے گئے جہاں پر ایک مسجد میں کئی مرد و خواتین کے ہمراہ ہم نے رات گزاری اور اب ہم ایک ہوٹل میں مقیم ہیں۔‘ایک سیاح ہانداد نصیر کا کہنا تھا کہ ’ہم سے پچاس ہزار کرایہ مانگا گیا۔

ہمارے پاس پچاس ہزار سے کچھ پیسے کم تھے۔ رات گزارنے کے لیے اپنی اہلیہ کا زیور ہوٹل والوں کے حوالے کرنا پڑے۔‘ماجد عباسی کہتے ہیں کہ سانحہ کی ایک بڑی وجہ ہوٹل والوں کا انتہائی نازک موقع پر انتہائی ناجائز منافع خوری کا رجحان تھا۔ ورنہ کئی ہوٹلوں میں گنجائش موجود تھی۔ ہوٹلوں کے ہالز میں بھی لوگوں کو رکھا جا سکتا تھا۔ہم نے بند پڑے گھروں کے تالے بھی توڑے کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا‘مقامی شہری نعمان عباسی کہتے ہیں کہ ہم نے دو روز میں 500 کے قریب سیاحوں کو دریا گلی میں ہوٹلوں کے علاوہ گھروں میں بھی پناہ دی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس علاقے میں گیس ہے اس لیے رات ایک ایک کمرے میں پندرہ پندرہ افراد کو رکھا۔‘لیکن ان کا شکوہ ہے کہ حکومت نے بروقت اتنظامات نہیں کیے جس سے سیاحوں کو شدید تکلیف ہوئی۔مری میں لوگ سردیوں میں میدانی علاقوں کا رخ بھی کرتے ہیں نعمان کہتے ہیں کہ ’ہم نے بند پڑے گھروں کے تالے بھی توڑے کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔‘مری کے مکین اشفاق عباسی دو ہوٹلوں کے مالک ہیں اور انھوں نے بھی اس ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا۔انھوں نے مجھے بتایا کہ اب مطلع صاف ہے اور میرے دونوں ہوٹلوں میں ٹھہرنے والے مہمان ناشتے میں مصروف ہیں اور کچھ ناشتہ کر کے گھروں کو لوٹنے کے لیے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔برفباری تو ہر سال ہو گی یہ قدرت کا نظام ہے لیکن لوگ سوال کر رہے ہیں کہ زمین پر موجود مشینری اور ادارے بروقت حرکت کرنے میں آخر اتنی دیر کیوں کر دیتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ہر علاقے کے ساتھ لفظ سانحہ لکھنا پڑ جاتا ہے چاہے وہ کوئی گنجان شہر ہو یا سیاحتی مقام۔ بشکریہ: بی بی سی۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

بھارت میں دوست برقع پہن کر دلہا سے بغل گیر ہوگیا، دلہن پریشان

معروف ڈرامہ صنف آہن میں ادکاری کے جوہر دکھانے والی اداکارہ کا تعلق کونسے ملک سے ہے اور اسے پاکستان لانے میں کس نے اہم کردار ادا کیا؟ جانئے