ایک کام فی الفور نہ کیا گیا تونعوذ باللہ پاکستان کی داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں ۔۔۔۔۔۔
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔پاکستان کے صوبوں جیسے حجم اور رقبے والے صوبے رکھنے والے ممالک کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ وہ اپنی وحدت کبھی قائم نہیں رکھ سکے۔ یوگوسلاویہ کے ایسے ہی تین صوبے بوسنیا، کروشیا اور سربیا تھے
جو بڑی بدامنی اور جانی نقصان کے بعد اب تین ملک ہیں۔ چیکو سلاویکیہ، اب چیک اور سلویک ممالک میں بٹ چکا ہے۔ بھارت جو قومیتوں کے حساب سے ہم سے کہیں زیادہ منقسم ہے، اس نے اپنی وحدت کو قائم رکھنے کیلئے خود کو 28 صوبوں میں تقسیم کیا
جب کہ آٹھ یونین علاقے (Union Territories) بھی ہیں جن میں پنجاب سے علیحدہ کئے گئے صوبہ ہریانہ کا شہر چندی گڑھ بھی ہے جو اسلام آباد کی طرز پر آباد کیا گیا ہے اور اسے ایک وفاق کی علامت بنایا گیا۔ ایران جہاں فارسی بولنے والے صرف 47 فیصد ہیں اور باقی سب اقلیتی زبانیں اور نسلی طور پر مختلف لوگ آباد ہیں وہاں بھی صوبوں کی تعداد 31 ہے۔
افغانستان جہاں پشتون آبادی واضح اکثریت میں ہے وہاں بھی اس قومیتی جھگڑے سے نجات کیلئے 34 صوبے بنائے گئے ہیں۔ پاکستان کی صوبائی اقلیتیں اس وقت ایک ایسے آتش فشاں کے دہانے پر آ کر کھڑی ہو چکیں ہیں کہ اگر کسی ایک صوبائی ہیڈکوارٹر پر قابض اکثریت نے اپنے قوانین اور طرزِ عمل سے محکوم اقلیت کو دبانے کی کوشش تیز کی،
تو اس کے نتیجے میں ایک خوفناک ردّعمل برآمد ہو سکتا ہے، جو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے کر ملک کو ایسی سول وار کی جانب دھکیل دے جس کا کوئی انجام نظر نہ آئے۔ صرف ایک صوبے میں قومی تحریک کی دیکھا دیکھی باقی صوبوں میں بھی ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
پاکستان اس وقت جس معاشی بحران کا شکار ہے، اس میں امن و امان کی حالت کو خراب کرنا انتہائی آسان ہے۔ وہ ملک جس کی کل جی ڈی پی 278 ارب ڈالر ہو، جس پر بیرونی قرضے 116 ارب ڈالر اور اندرونی قرضے 204 ارب ڈالر ہوں،
پوری دُنیا کے قرض خواہ ممالک خونخوار نظروں سے قرضوں کی وصولی کیلئے اس ملک کے اثاثوں کی طرف دیکھ رہے ہوں، ایسے میں اگر قومی سطح پر ایمرجنسی کے طور پر کوئی لائحہ عمل طے نہ ہوا تو ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔