پھر فوت ہوجانیوالے کو کس مشکل سے رات کی تاریکی میں دفن کیا گیا اور اصل کہانی کیا تھی ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی مظہر برلاس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ’’انصاف کرو ورنہ یاد رکھنا کہ حضرت صالحؑ کی اونٹنی کو زندگی سے محروم کرنے والے صرف چار تھے مگر پوری قوم غرق ہو گئی کیونکہ باقیوں کا جرم صرف خاموش رہنا تھا‘‘۔
خدائے لم یزل کا شکر گزار ہوں کہ کبھی ناانصافیوں پر چپ نہیں رہا، کسی نہ کسی صورت احتجاج ضرور کیا ہے، ہر ناانصافی پر صدائے احتجاج ضرور بلند کی ہے، خواہ یہ ناانصافی، انصاف فراہم کرنے والوں ہی کی جانب سے کیوں نہ ہو۔ آپ کو یاد ہوگا جب سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس کے صاحبزادے کے ’’لچھن‘‘ سامنے آئے تو یہ صفحات گواہ ہیں کہ میری طرف سے خاموشی کا مظاہرہ نہیں ہوا تھا بلکہ برملا اقرار کرتا ہوں کہ میری زندگی میں اگر کوئی کاش ہے تو بس یہی کہ میں ایک ایسی تحریک کا حصہ بنا جو انصاف کے لئے تھی۔برادر بزرگ چودھری اعتزاز احسن اس تحریک میں بڑے سرگرم تھے، ہم نے ڈنڈے کھا لئے مگر وہ شخص جب بحال ہوا تو اس نے پوری قوم کو مایوس کیا، وہ صاحب بال لہرا کے تقریریں کرتے تھے بعد ازاں انہیں بھی افسوس کے آنگن میں بیٹھنا پڑا۔ پچھلے دنوں پروٹوکول کی محتاجی میں رہنے والے اس چیف جسٹس کے ایک رشتے دار کو لوگوں نے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیا کیونکہ انہوں نے دولت کی ہوس میں لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا، ظلم کیا، ناانصافی کی، یہاں سب فرعونی لہجے خاک کا رزق بن جاتے ہیں مگر لوگ سوچتے نہیں۔ افتخار چودھری نے پاکستان کے عدالتی سربراہ کے طور پر اتنی غلط روایات قائم کیں کہ اس کے بعد ابھی تک عدالتوں کا ماحول سدھر نہیں سکا۔ آئے روز عدالتوں میں بدامنی اور زدوکوب کرنے کے واقعات سامنے آتے ہیں، ہمارے وکلاء بھائی ماتحت عدالتوں کو تالے بھی لگا دیتے ہیں،
بعض تو ماتحت عدالتوں کے ججوں کی توہین ہی کر ڈالتے ہیں مگر انصاف کے نظام میں یہ عجیب انصاف ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کے سلسلے میں توہینِ عدالت کا قانون جاگ جاتا ہے مگر ماتحت عدالتوں کے ججوں کے ساتھ جو مرضی ہو جائے۔ توہینِ عدالت ہوتی ہی نہیں سو ان ججوں کو مخالف فریق کے ساتھ مجبوراً صلح صفائی کرنا پڑتی ہے۔ یہ سب کچھ انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ پچھلے چند برسوں میں عدالتوں کے علاوہ اسپتالوں اور دیگر اداروں پر بھی دھاوے نظر آئے، یہ سب کچھ قانون کے ٹھیکیداروں نے کیا۔تنخواہوں کے معاملے میں بھی ناانصافی اور ظلم ہے، ایک ہی ملک میں تنخواہوں میں اتنا بڑا تضاد کیوں ہے؟ ججز تو ججز رہے، عدالتوں میں کام کرنے والے دوسرے ملازمین کی تنخواہیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، عام ججوں کی تنخواہیں وزیراعظم، صدر اور آرمی چیف سے زیادہ ہیں۔ عجیب ظلم ہے کہ ایک عام سرکاری ڈرائیور تیس چالیس ہزار تنخواہ لیتا ہے مگر اسی طرح کا ڈرائیور جب ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں ہو تو اس کی تنخواہ لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ہر ضلع میں انتظامی افسر گریڈ 18کا ہے مگر وہاں پر عدالتی افسر گریڈ 22 کا ہے، یہ گریڈ شاید صوبے کے چیف سیکرٹری کا ہو کیونکہ بعض جگہوں پر چیف سیکرٹری بھی گریڈ 21کے ہیں۔ تنخواہوں، پروٹوکول اور گریڈوں میں انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے، اعلیٰ عدالتوں میں تو اور بھی عجیب بات ہے، محض چند سالہ نوکری، بھاری تنخواہیں، اعلیٰ پروٹوکول اور عمر بھر کا سکھ چین۔
اس دوران انتظامی اختیارات کا بھی کسی اور طریقے سے استعمال، یہ نوکری تو واقعی امرت دھارا ہے۔کچھ برس پہلے لاہور ہائیکورٹ کے ایک چیف جسٹس نے جب لوئر جوڈیشری کے امتحانات کو پی سی ایس سے نکال کر ڈائریکٹ اپنے ماتحت کیا تھا تو میں اس خاکسار نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی کیونکہ اس امتحانی چکر کے پیچھے مالی مفادات کا وسیع کھیل تھا۔ تحریری امتحان کے بعد انٹرویوز میں بھی ایک کہانی تھی، انصاف ہوتا تو لوگ عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہوتے؟
پھر ایک اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ آئے انہوں نے بچوں کی شادیوں کے لئے کیا کچھ نہ کیا، ان کی سیاسی تصویریں سوشل میڈیا کا حصہ بن گئیں۔لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس محمد امیر بھٹی سے لوگوں کی بہت توقعات وابستہ ہیں۔ لوگوں کو امید ہے کہ جن مقدمات کے فیصلے آج تک لٹکائے جاتے رہے ،اب وہ فیصلے ہو جائیں گے۔ خاص طور پر سانحہ ماڈل ٹائون کا بڑا ذکر ہو رہا ہے کہ اب اس اہم مقدمے کا فیصلہ بھی ہو جائے گا۔ یہ سب ٹھیک ہے مگر اس دوران پورے پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں خوف کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔
میرے صوبے پنجاب کو پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے کہ یہاں پہلے انتظامی افسر ٹرانسفر کے خوف کا شکار تھے اب عدالتی افسر بھی اس کا شکار ہو گئے ہیں، پنجاب کی ماتحت عدالتوں کے ججوں کو ہر وقت یہی ڈر لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کل ٹرانسفر کہاں کر دیا جائے۔ خوف کے یہ سائے پھیلانے میں سارا کردار لاہور ہائیکورٹ کے ہی ایک آفس کا ہے جہاں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے ہی ماتحت کچھ افراد اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ انہوں نے جسٹس محمد امیر بھٹی کی تمام تر کوششوں پر پانی پھیرنا ہے۔
ان افراد کی انتقامی پالیسیوں کے تحت بعض خواتین ججوں کے تبادلے بھی گھر سے پانچ سو کلو میٹر دور ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو چاہئے کہ وہ انتظامی امور چلانے کے لئے ایڈمنسٹریشن کمیٹی سے مشورہ لیں اور ان افراد کو، جو بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، خود سے دور کریں تاکہ جسٹس محمد امیر بھٹی کا نام اچھے لفظوں کے ساتھ تاریخ کا حصہ بنے ورنہ سرور ارمان تو پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ۔۔۔عدل کے معیار میں آجائیں گی تبدیلیاں۔۔بے گناہی لائق تعزیر کر دی جائے گی