in

مگر کیوں ؟ حیران کن خبر

مگر کیوں ؟ حیران کن خبر

کوئٹہ (ویب ڈیسک) بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے وندر میں اتوار کو ایک ٹرانسپورٹر نے اپنی ایک قیمتی بس کو کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر ’احتجاجاً‘ نذرِ آتش کر دیا اور اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔نامور صحافی محمد کاظم بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔

بس کے مالک حاجی داد محمد اچکزئی نے کہا کہ ‘کوئی پاگل ہے جو خود سے اپنی ڈیڑھ کروڑ روپے مالیت کی بس کو نذر آتش کر دے، لیکن میں نے ایسا کر دیا، کیونکہ میں مجبور ہوں۔’انھوں نے اپنی بس کو کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر نہ صرف نذرآتش کیا بلکہ کسی کو آگ بجھانے بھی نہیں دی جس کے باعث بس مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔انھوں نے چیک پوسٹ کے عملے پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس ’چیک پوسٹ پر کوسٹ گارڈز کا عملہ نہ صرف ٹرانسپورٹروں کو تنگ کرتا ہے بلکہ ان کی وجہ سے مسافر بھی تنگ ہوتے ہیں۔‘

بس کو جلانے کے بعد ٹرانسپورٹرز نے احتجاج کر کے کوئٹہ کراچی ہائی وے کو بلاک کیا تھا تاہم ڈپٹی کمشنر لسبیلہ سے مذاکرات کے بعد انھوں نے اپنا احتجاج ختم کر دیا۔اگرچہ کوسٹ گارڈز کے حکام کی جانب سے باقاعدہ طور پر کوئی بیان نہیں دیا گیا تاہم فورس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ٹرانسپورٹر کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ایک دوسرے اہلکار کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پریس ریلیز جاری کی جائے گی۔حادثاتی طور پر کسی چیز کو آگ لگ جائے یا کوئی جذبات میں آ کر اپنی

کسی چیز کو نذر آتش کر دے تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن کوسٹ گارڈز کی چیک پوسٹ پر بس کو نذر آتش کرنے سے متعلق جو ویڈیو وائرل ہوئی اس میں بس کے پاس ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔بعض ایسی اطلاعات ہیں کہ فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچا تھا لیکن وہاں احتجاج کرنے والے افراد نے ان کو آگ نہیں بجھانے دی۔

فون پر رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر لسبیلہ افتخار بگٹی نے بتایا کہ انھوں نے ٹرانسپورٹروں کو یہ بتایا کہ ان کے جو مسائل ہیں ان کے حوالے سے کوسٹ گارڈز کے حکام سے ان کے مذاکرات کروا کر انھیں حل کروایا جائے گا۔حاجی داد محمد اچکزئی نے بتایا کہ ان کی بس 2016 ماڈل کی تھی اور اس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کوسٹ گارڈ کے عملے کے رویے سے تنگ آ گئے جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی قیمتی بس کو جلا دیا کیونکہ ان کے بقول اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ بسوں میں جو لوگ سفر کرتے ہیں ان پر یہ لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔’ کبھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسافر افغان ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ یہ ازبک ہیں، ان کو مت اٹھاﺅ۔’انھوں نے الزام لگایا کہ جو بسیں کراچی جاتی ہیں ان کو تلاشی کے نام پر اس چیک پوسٹ پر ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک روکا جاتا ہے جس کے باعث ان میں سفر کرنے والے مسافروں بالخصوص خواتین اور بچوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حاجی داد محمد اچکزئی نے دعویٰ کیا کہ بسوں میں سواری کی تعداد کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹروں کو نقصان ہورہا ہے۔انھوں نے الزام لگایا کہ ‘اگر ٹرانسپورٹر نقصان سے بچنے کے لیے چند تھان کپڑوں کے یا اس طرح کی کوئی اور چیز لے جائیں تو ان سے پیسے طلب کرتے ہیں۔’ان کا کہنا تھا کہ وہ بسوں میں کوئی ممنوعہ اور غیر قانونی چیز نہیں لے جاتے ہیں اور ان میں وہ چیز لے جاتے ہیں جو کہ پاکستان کی مارکیٹوں میں موجود ہوتی ہیں۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

دو قدم پیچھے ہٹ جاؤ تمہارا بھی فائدہ ہو گا اور ملک و قوم کا بھی ۔۔۔۔۔

بیٹے کا نکاح سادگی سے مسجد میں ہوا اور 25 لاکھ کی رقم غریبوں میں تقسیم کی ۔۔ جانیں یہ والد سب کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟