پاکستان پر کڑا وقت : سیاستدان اور حکمران جائیں بھاڑ میں ، پاکستانیوں تم خود ایک دوسرے کے دست وبازو بن جاؤ۔۔۔۔ پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر کا ہم وطنوں کو مشور
لاہور (ویب ڈیسک) پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر اور نامور کالم نگار لیفٹننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔آج کا پاکستان مہنگائی کے شدید عذاب سے گزر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مفلسی بعض انسانوں کو کفر کی حد تک لے جاتی ہے۔ لیکن ایسے انسان معاشرے کا بوجھ بھی بنتے ہیں۔
اگر آپ کو خداوند کریم نے مالدار نہیں بنایا لیکن اتناتوانگر ضرور بنا دیا ہے کہ کسی غریب بھائی بہن کی مدد کر سکتے ہیں تو نہ صرف اللہ کے ہاں اس مدد کا بہت اجر ہے بلکہ دنیا بھی آپ کی دریا دلی اور کشادہ ظرفی کا نظارہ کرکے آپ کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی مہنگائی کی وجوہات متنازعہ بھی ہوں گی اور سیاسی آلودگی سے مبّرا بھی نہیں ہوں گی لیکن یہی وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ کے اس تنگ دائرے سے باہر نکلیں جو سیاستدانوں نے بنانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ یہ تنگ نظر سیاستدان امیر ابن امیر ہیں۔ اگر انہوں نے غربت و افلاس میں آنکھ کھولی ہوتی تو شکوۂ مہنگائی کرنے کی بجائے نکبت و عسرت میں گھرے ہوئے
ہم قوموں کو اوپر اٹھاتے۔ اگر آج یہ مہنگائی ایک عالمگیر وبا ہے تو ہمیں اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لئے سیاست سے اجتناب کرکے فراست، بصیرت اور کشادگیء ظرف کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ جو سیاسی رسہ کشی کے مظاہرے ہم کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں ان سے ایک پل کے لئے بیگانہ ہو کر اور آنکھیں موند کر اپنے اندر جھانکیں۔ سکندر نے خواہ یہ وصیت کی تھی
یا نہیں کہ انتقال کے وقت اس کے خالی ہاتھ کفن سے باہر رکھے جائیں، اگر ہمیں پروردگارِ عالم نے اس قابل بنایا ہے کہ ان خالی ہاتھوں کو جیتے جی اپنے سامنے رکھیں اور یہ تصور کریں کہ ایک روز ہم سب نے انہی خالی ہاتھوں سے اس دنیا کو چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں چلے جانا ہے
جس میں نہ امارت ہو گی، نہ غربت، نہ سیاست نہ تجارت اور نہ زراندوزی تو یہ ہماری نجاتِ اخروی کا سامان ہوگا۔میں نے یہ چند سطور صرف کالم کا پیٹ بھرنے کے لئے قلمبند نہیں کیں۔ یقین کیجئے میں نے بہت سوچ بچار کے بعد یہ کالم لکھا ہے۔ اس کا تعلق کسی بھی ایسے موضوع سے نہیں کہ جو آج کل یا ماضی میں کالم نویسی کے موضوعات بنتے رہے ہیں۔ میں نے ذہن میں ایک مثالی پاکستانی ہونے کا تصور نہیں پالا۔
نہ ہی یہ خیال کیا ہے کہ ہم دفاعی، جغرافیائی، سماجی اور کسی بھی دوسرے حوالے سے اس قسم کے خیالات و افکار کے سزاوار یا محتاج ہیں۔ اگر ہم اس قابل ہیں کہ اپنے کسی ایسے بھائی کی مدد کر سکیں جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا لیکن آج کی مہنگائی نے اسے کئی حوالوں سے نڈھال اور بے بس کر رکھا ہے تو اس کی مدد کرنے سے دریغ نہ کریں۔
اپنے اردگرد ماحول کا جائزہ لیں۔ بازار میں نکلیں۔ پیشہ ور گداگروں اور بھکاریوں کے بریگیڈ تو ہم سب نے دیکھ رکھے ہیں۔ لیکن بندگانِ خدا کے اس ہجوم میں کوئی خدا کا بندہ ایسا بھی ہوگا جس کا سراپا اس مہنگائی کے ہاتھوں فریاد بہ لب نظر آئے گا۔ اس کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس سے اپنا تعارف نہ کروایئے۔ بس وہی کام کیجئے کہ جس کے لئے خدا اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے کہ دینے والے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے پوشیدہ رکھیں۔ہم سب جانتے ہیں
کہ یہ وقت پاکستان پر بھاری ہے۔اس کی وجوہات پر تنقید و تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم کو اگر خدا پر ایمان ہے تو اس ایمان کی اصل رمز یہی ہے کہ:تا نباشد در جہاں محتاجِ کس۔۔۔نکتہء شرحِ مبیں این است و بس