ہر عروج کو زوال ہے : سبق آموز حقائق
لاہور (ویب ڈیسک) واہ مولا تیری قدرت ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ عزیر بلوچ جیسے بدمعاش کسی زمانے میں لاہور میں بھی ہوا کرتے تھے ۔ وہ بھی اپنے سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے ہمیشہ قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتے اور عام آدمی کی زندگی اجیرن کرتے۔ عاطف چودھری ‘ حنیفا بابا ۔
نامور کالم نگار انجم فاروق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایسے کتنے ہی کردار تھے جو لاہور میں اہم سمجھے جاتے تھے مگرپھر کیا ہوا؟ ایک سے بڑھ کر ایک عبرت ناک موت ۔حنیفا باباکو پولیس نے بتا یا کہ تمہا رے پاس آدھا گھنٹہ ہے تو اس کی شلوارگیلی ہوگئی تھی ۔
سینکڑوں لوگوں کی زندگی کی شمع بجھانے والا خوف سے کانپ گیا ۔ اندرونِ شہر کا ایک اور بدمعاش باسو انجام کو پہنچ گیاتو اس کی بیوی آخری سانسوں تک لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی رہی ۔ سنا ہے عزیر بلوچ کے بچے بھی قابلِ رحم زندگی گزار رہے ہیں ۔انہیں ہر وقت آنے والے کل کی فکر کھاتی ہے ۔عزیر بلوچ کے لیے اس سے بڑی سزا اور کیا ہوسکتی ہے
کہ اس کے بچوں کولوگ ترس کھا کر بھیک بھی نہ دیں۔ یقین مانیں ‘عزیربلوچ جیسے سستے غنڈے کبھی اتنے اہم نہ ہوں اگر انہیں سیاسی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔ جے آئی ٹی میں پیپلزپارٹی کی قیادت کا نام ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بہت جلد ہو جائے گا ‘
مگر ایک بات طے ہے کہ پیپلزپارٹی پچاس سالوں میں لیاری کا قرض نہیں اتار سکی ۔ جتنی محبت لیاری نے پیپلز پارٹی سے کی بدلے میں بھٹو کی جماعت نے کیا دیا؟ امن‘ جو ہر شہری کاآئینی حق ہوتا ہے وہ بھی لیاری کو نصیب نہ ہوا ۔ عزیر بلوچ آخری دنوں میں پیپلز پارٹی سے تھوڑا ناراض تھا‘ میں نے اس سے سوال کیا ”لیاری میں پیپلز پارٹی اور عزیر بلوچ کتنے لازم وملزوم ہیں؟‘‘
کرمنل کا جواب چونکا دینے والا تھا: لیاری پیپلزپارٹی سے مایوس ہوچکا ہے ‘میں اگر ساتھ نہ دوں تو اگلے الیکشن میں بلاول بھٹو بھی یہاں سے جیت نہ سکے۔ اور پھرعجب اتفاق ہوا کہ 2018ء کے الیکشن میں بلاول بھٹوزرداری لیاری سے ہار گئے ۔