خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کا اکلوتا بیٹا کس مشہور زمانہ کمپنی میں اور کس عہدے پر فائز ہے ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی محمد اسرار اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔’ماں کا خیال ہر وقت آتا ہے لیکن جب کوئی تہوار ہو، خوشی کا یا عید کا موقع ہو تو اس وقت امی کا خیال زیادہ آتا ہے، سب لوگوں کے خاندان اکٹھے ہوتے ہیں تو کمی تو محسوس ہوتی ہے کہ میری امی میرے ساتھ نہیں ہیں۔‘
یہ کہنا تھا سید مراد علی کا جو پاکستان کی نامور شاعرہ پروین شاکر کے اکلوتے بیٹے ہیں۔پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہو کر وفات پا گئی تھیں۔ اس وقت مراد کی عمر 15 برس تھی اور وہ او لیول کے طالب علم تھے۔پروین شاکر پاکستان میں ایک رومانوی شاعرہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں۔ ان کی شاعری کا موضوع زیادہ تر محبت اور عورت تھا۔ ان کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں سول سروسز کا امتحان دینے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ مراد علی نے بتایا کہ انھیں آج بھی 26 دسمبر کی وہ سرد صبح یاد ہے جب ان کی والدہ ایک حادثے کے باعث ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں۔مراد علی کا کہنا تھا ’بارش ہو رہی تھی، امی حسب معمول تیار ہو کر آفس چلی گئیں۔ تقریباً ساڑھے نو بجے فون آیا کہ آپ کی امی کو حادثہ پیش آیا ہے آپ پمز آ جائیں۔‘مراد نے فوراً پروین شاکر کی قریبی دوست پروین قادر آغا کو فون کیا وہ بھی ہسپتال آ گئیں۔مراد بتاتے ہیں ’اس دن بارش ہو رہی تھی اور ٹریفک سگنل کام نہیں کر رہے تھے اور بس نے ان کی کار کو ٹکر رسید کر دی۔‘’ہسپتال پہنچنے پر مجھے بتایا گیا کہ جب انھیں (پروین شاکر کو) لایا گیا تو نبض چل رہی تھی لیکن پھر ان کی وفات کی خبر دی گئی۔‘مراد کو اپنی والدہ کے ساتھ گزرے لمحوں کی کمی
آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا ’امی جتنی بھی مصروف ہوتیں رات کا کھانا گھرپر کھاتی تھیں اور کھانے کے ٹیبل پر ہماری باتیں ہوتیں، سکول میں کیسا دن گزرا؟ پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟ دوستوں کے ساتھ وقت کیسا گزر رہا ہے؟ اور تھوڑی سی سیاسی باتیں بھی ہوتی تھیں اگرچہ اس وقت میں چھوٹا تھا مجھے سمجھ نہیں آتی تھی۔‘مراد علی کا کہنا ہے کہ وہ کھانے کے معاملے میں بہت نخرہ کرتے تھے لیکن ان کی والدہ ان کی پسند کے کھانے بھی بناتیں۔ ’امی کے ہاتھ کا مٹرپلاؤ مجھے بہت پسند ہے اور امی رہو مچھلی بنایا کرتی تھی جو مجھے بہت پسند تھی۔‘مراد کہتے ہیں ’ان کی خوشی کا محور میں تھا‘۔’امی مصروف ہوتی تھیں، مشاعروں اور آفس کے کاموں کے بعد جو وقت بچتا تھا وہ میرے حصے میں آتا تھا اور وہی چند یادیں ہیں ان کی جو میرے پاس ہیں۔‘مراد علی پروین شاکر کی اکلوتی اولاد تھے اور ان کی محبتوں کا مرکز بھی لیکن وہ پھر بھی انھیں خود سے دور کرنا چاہتی تھیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے مراد کا کہنا تھا کہ ’وہ مجھے کہتی تھیں کہ آپ کو بورڈنگ سکول میں ڈال دیں گے۔ پہلے جب میں چھوٹا تھا تو مجھے ایچیسن میں ڈالنا چاہتی تھی، پھر حسن ابدال کیڈٹ کالج میں ڈالنے کو کہا اور پھر لارنس کالج کی بات ہوئی۔‘’میں نے ان سے کہا آپ مجھ سے محبت کرتی ہیں، یہ سب اچھی جگہیں ہیں لیکن میں آپ کا اکلوتا بیٹا ہوں، میں نہیں جانا چاہتا۔‘
مراد کے بقول ان کے بورڈنگ جانے سے انکار پر پروین شاکر نے ان سے ایک فرمائش کی۔’انھوں نے کہا ٹھیک ہے، مجھے ایک لمبا سا خط لکھو، پھر مجھے بتاؤ کہ تم کیوں نہیں جانا چاہتے؟‘’پھر میں نے خط لکھا اور امی نے پڑھا تو کہنے لگیں کہ ٹھیک ہے تم نہیں جانا چاہتے، تو پھر ہمارے ساتھ ہی رہو گے۔‘مراد علی کا کہنا تھا کہ ان کی تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے ان کی والدہ نے واضح گائیڈ لائن دے رکھی تھی۔’ان کا کہنا تھا کہ تم ڈاکٹر بنو اور وہ بھی نیورو سرجن، جو سخت قسم کی تعلیم ہوتی ہے، تم وہ کرو اور وہ اس پر بہت زور دیتی تھیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کی پڑھائی کے معاملے میں سمجھوتہ نہیں کرتی تھیں حتی کہ ایک مرتبہ نمبر کم آنے پر ان کے دوستوں کے سامنے انھیں ڈانٹ دیا تھا۔مراد تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی والدہ پروین شاکر بہت دور اندیش تھیں۔ ’وہ کہتی تھیں
مراد تُم کمپیوٹر ضرور پڑھنا، کمپیوٹر بہت ضروری ہے، آگے دنیا اسی طرف جائے گی اور ان کی یہ بات سچ ہوئی۔‘مراد نے بتایا کہ انھوں نے ماسٹرز کمپیوٹر سائنس میں کیا ہے۔ ’میں سافٹ ویئر انجینئر بن گیا ہوں میں TESLA کمپنی میں کام کرتا ہوں ۔ یہ وہی کمپنی ہے جو برقی گاڑی بناتی ہے۔ وہ اگر ہوتیں تو وہ بالکل مطمئن ہوتیں کہ میں کامیاب ہو گیا ہوں اور وہ خوش ہوتیں۔‘مراد علی کا کہنا تھا کہ پروین شاکر ان سے ہمیشہ محنت کرنے کے لیے کہتیں اور ’وہ خود انتہائی محنتی تھیں۔‘