in

داتا دربار کے سامنے بیٹھنے والے ایک مجذوب کا سچا واقعہ

داتا دربار کے سامنے بیٹھنے والے ایک مجذوب کا سچا واقعہ

لاہور(ویب ڈیسک) نامور کالم نگار تنویر ظہور اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کسی بات پر مجھے سائیں منا یاد آ گیا۔ یہ ایک گداگر تھا۔ یہ 60 کی دہائی کا ذکر ہے۔ اس دور میں حضرت علی ہجویری ؒکے مزار پر مجاور قابض تھے، یعنی محکمہ اوقاف نے ابھی یہ مزار اپنی تحویل میں

نہیں لیا تھا۔ جہاں اب سماع ہال بن چکا ہے، وہاں کھلا میدان تھا۔ اس میدان میں ہر جمعرات کو قوال اپنے فن کا باری باری مظاہرہ کرتے۔ ہماری رہائش ہجویری محلہ (دربار کے عقب میںؒ) تھی۔ جبکہ مزار کے سامنے سے گزر کر کربلا گامے شاہ کے راستے سے باہر نکلتا تو ساتھ ہی سنٹرل ماڈل سکول ہے۔

سڑک پار کر کے مسلم ماڈل ہائی سکول (اردو بازار) میں پہنچ جاتا۔ جہاں سے میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اب کربلا گامے شاہ کے اندر سے گزرنا تو دور کی بات،حضرت علی ہجویری ؒکے مزار تک پہنچنے کے لیے بھی چیکنگ کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

مزار کے قریب ایک شخص چادر بچھا کر بیٹھ جاتا اور بلند آوازسے کہتا ’’داتا ایک سو ایک روپیہ لوں گا‘‘ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ 60ء کی دہائی میں ایک سو ایک روپے کی کیا ویلیو تھی۔ اس دور میں توپائی اور ایک پیسہ بھی اہمیت رکھتا تھا۔

سکول جاتے ہوئے میں اسے دیکھتا۔ سکول سے واپسی پر اس شخص کے پاس کچھ دیر کے لیے رُک جاتا کہ کیا کوئی شخص اس کوایک سو ایک روپے بھی دیتا ہے۔ بعد میں مجھے علم ہوا کہ اس گداگر کا نام ’’سائیں منا‘‘ ہے۔ ایک شخص نے سائیں منا کو سو روے کا نوٹ دیا تو سائیں منا نے اسے واپس کر دیا کہ میں ایک سو ایک روپے لوں گا۔

گویا سائیں منا ایک سو ایک روپے سے کم یا زیادہ نہ لیتا۔ اسے جب ایک سو ایک روپے کسی ایک شخص سے مل جاتے تو وہ چادر سمیٹ کر چلا جاتا۔ اردگرد کے افراد سے میں نے دریافت کیا کہ کیا اسے روزانہ ایک سو ایک روپے مل جاتے ہیں؟ تو انھوں نے کہا۔ ضروری نہیں کہ کسی ایک شخص سے روزانہ اسے ایک سو ایک روپے مل جاتے ہوں۔ شام تک انتظار کرتا۔ نہ ملنے کی صورت میں خالی ہاتھ چلا جاتا۔ اس کے قریب ہی ایک گداگر بیٹھا ہوتا جو اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائے رکھتا

اور خاموش بیٹھا رہتا۔ اس کے آگے پھیلی چادر پر لوگ ایک پیسہ بھی رکھ دیتے تو اسے کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ صبح سے شام تک وہ اپنی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھائے رکھتا۔ میرے لیے تعجب کی بات یہ تھی کہ کیا اس کا ہاتھ تھکتا نہیں؟ ’’بال جبریل‘‘ میں علامہ اقبال کی ایک نظم ’’گدائی‘‘ کا آخری شعرپیش ہے:۔؎ مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج ۔۔۔۔کوئی مانے یا نہ مانے، میر و سلطاں سب گدا

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ہجوم سے پریانتھا کمارا کی زندگی کی بھیک مانگنے والےاس شخص کے ساتھ پولیس نے کیا کیا؟

نیلام گھر اگر بینظیر بھٹو کے دور میں ختم نہ کیا جاتا تو یہ پروگرام کونسا عالمی ریکارڈ قائم کرتا ؟