پاکستانی پاسپورٹ پر کن ممالک میں بغیر ویزہ سفر کیا جا سکتا ہے؟ کن ممالک کے لوگ بغیر ویزہ کے پاکستان آ سکتے ہیں؟
ہینلی پاسپورٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کے چار بدترین پاسپورٹس میں سے ایک ہے اور اس کا نمبر دنیا کے 116 ملکوں میں 113 واں ہے۔ پاکستانی شہری دنیا کے صرف 31 ملکوں کا سفر بغیر ویزا کر سکتے ہیں۔
ہینلی پاسپورٹ انڈیکس ایک ادارہ ہے جو دنیا بھر کے پاسپورٹس کی رینکنگ کرتا ہے جس کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ اس پاسپورٹ کے حامل دنیا کے کتنے ملکوں میں بغیر ویزا کے جا سکتے ہیں یا انہیں آمد کے بعد ہوائی اڈے پر ہی ویزا جاری کر دیا جاتا ہے۔
سال 2021 کی چوتھی سہ ماہی کے لیے جاری ہونے والی اس ادارے کی فہرست کے مطابق جاپان اور سنگاپور کے پاسپورٹ مشترکہ طور پر دنیا میں طاقتور ترین ہیں اور ان کے مالک 192 ملکوں کا سفر پہلے سے ویزا لیے بغیر کر سکتے ہیں۔
دوسرا نمبر مشترکہ طور پر جرمنی اور جنوبی کوریا کو ملا ہے جن کے پاسپورٹ 190 ملکوں کے لیے کارگر ہیں، جب کہ فن لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ اور سپین والے 189 ملکوں میں آسانی سے جا سکتے ہیں۔
فہرست میں افغانستان سب سے نیچے ہے، جس کے شہری صرف 26 ملکوں میں بغیر ویزا کے جھنجھٹ کے سفر کر سکتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں کہ وہ کون سے 31 ملک ہیں جو بغیر ویزا پاکستانیوں کو آنے کی اجازت دیتے ہیں۔ وہ فہرست ایک اور ویب سائٹ guideconsultants.com پر موجود ہے۔
اس کے مطابق پاکستانی شہری کک آئی لینڈ، ڈومینیکا، ہیٹی، گیمبیا، مائیکرونیشیا، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو، مونٹ سیراٹ، نیو، سینٹ ونسن اور وانواتو کا سفر بغیر ویزا کے جھنجھٹ کے کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کمبوڈیا، کینیا، مالدیپ، مڈغاسکر، سیشلز، موریطانیہ، صومالیہ، نیپال، سری لنکا، سینیگال اور یوگینڈا سمیت 22 ملکوں میں پہنچنے کے بعد ہوائی اڈے پر ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔
کیا واقعی پاکستان کا پاسپورٹ چوتھا بدترین ہے؟
یہ سوال فہرست پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں سب سے پہلے آیا۔ پاکستان سے نیچے صرف شام، عراق اور افغانستان ہیں۔ یہ تینوں ملک حالیہ برسوں میں خانہ جنگی میں مبتلا رہے ہیں، ان کا کسی طور موازنہ پاکستان سے نہیں بنتا۔
لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ حیرت انگیز طور پر یمن، فلسطینی علاقے، صومالیہ اور لیبیا تک پاکستان سے اوپر ہیں، جو سیاسی لحاظ سے پاکستان سے کہیں زیادہ انتشار کا شکار رہے ہیں۔
اس کے باوجود پاکستان کی اس فہرست میں اتنے نیچے درجے پر پوزیشن پاکستانی وزارتِ خارجہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔