ایک خصوصی تبصرہ ملاحظہ کریں اور اپنی رائے ضرور دیں
لاہور (ویب ڈیسک) علامہ سعد رضوی صاحب آپ کو یہ کامیابی بھی مبارک ہو اور رہائی بھی۔ لیکن نہ جانے میں ان پولیس والوں کے چہروں کا تصور کرکے اداس ہوجاتا ہوں۔ جن کے جسم زخموںسے چور تھے اور وہ اپنے خاندانوں کو بے آسرا چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔
وہ بھی مسلمان تھے اور مجھے یقین ہے وہ بھی عاشق رسولؐ تھے۔ نامور کالم نگار سہیل دانش اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کیونکہ مسلمان ہونے کی شرط ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کے حبیبؐ کا عاشق ہو۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ سعد رضوی کی اگلی سیاست کیا ہوگی۔
ابھی اس کے متعلق کوئی بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ گزشتہ انتخابات میں تحریک لبیک ایک طاقتور سیاسی شناخت کے طور پر ابھری تھی۔ اس نے قابل لحاظ ووٹ حاصل کئے تھے۔ آج کل ہر جگہ ان کا چرچا ہے لیکن سوال یہی ہے کہ کیا ان کے ووٹ بینک میں آئندہ انتخابات میں اضافہ ہوگا یا کمی ہوگی۔ بنیادی سوال یہی ہوگا کہ پاکستان کا عام ووٹر تحریک لبیک کی ان کامیابیوں کو کیسے دیکھتا ہے۔کیا عام آدمی ان کامیابیوں کو تحسین کی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
وہ ان کامیابیوں کو کامیابیوں کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ کیا پاکستان کے سیاسی مناظر نامے میں اس کامیابی کو کامیابی سمجھا جائے گا۔ اور ان کامیابیوں سے اس کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوگا۔ ایسی کامیابی جس سے عوامی حمایت میں کمی ہو اسے کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس لئے علامہ سعد رضوی کیلئے یہ سوال سب سے اہم ہوگا کہ ان کامیابیوں سے ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوا یا کمی واقع ہوئی۔
1970ء کے بعد سے آج تک کی انتخابی معرکہ آرائیوں پر ایک نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان میں لبرل ووٹ’ مذہب کے نام پر پڑنے والے ووٹ سے زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی راسخ العقیدہ مسلمان نہیں۔ ٹھیک ہے کہ ہمارے اعمال’ ہمارے عمومی کردار میں بہت سی کمزوریاں ہیں جس کی سزا بھی ہم بھگتتے رہتے ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ تحریک لبیک کے کارکنوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کا ورکر ان کی قیادت کی کال پر ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہتا ہے۔ ان کے ورکرز باہر نکلے۔ تو وہ اپنے مطالبات کومنوانے میںکامیاب رہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ وہ اس طاقت کو انتخابی طاقت میں بدل سکیں گے یا نہیں۔