in

جاوید چوہدری نے سبق آموز واقعہ بیان کردیا

جاوید چوہدری نے سبق آموز واقعہ بیان کردیا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔چین نے پچھلے سال دریائے یارلنگ پر بھارت کی سرحد سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنانا شروع کر دیا ‘ یہ ڈیم سائز میں بھی دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہو گا

اور یہ اب تک کے ڈیمز کے مقابلے میں بجلی بھی سب سے زیادہ پیدا کرے گا اور اس پر یقینا اربوں ڈالر خرچ بھی ہوں گے۔یہ منصوبہ یقینا حیران کن ہے لیکن اس سے بڑی حیرت یہ ہے یہ پراجیکٹ وہ ملک بنا رہا ہے جس کے انجینئر چالیس سال پہلے پاکستان کے ڈیمز دیکھنے آتے تھے‘ یہ لوگ ہمارے ڈیمز پر ریسرچ کرتے تھے مگر آج ہم کہاں ہیں اور یہ کہاں ہیں؟ دنیا میں سب سے زیادہ ڈیمز اس وقت چین میں ہیں‘ ان کی کل تعداد 98ہزارہے اور یہ دنیا کے مجموعی ڈیمز کے برابر ہیںاور ان ڈیمز میں 23ہزار8 سو 41 ڈیمز بڑے ہیں‘ چین ان ڈیمز سے لاکھ میگا واٹ بجلی حاصل کرتا ہے‘

چین کا خیال ہے یہ2050 اور 2060 کے درمیان اپنی ساری بجلی تھرمل سے ہائیڈرو پر شفٹ کر دے گا‘ اس کا صرف ایک شہر شنگھائی 54 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کرتا ہے جب کہ ہمارے پورے ملک کو 18 ہزار میگاواٹ بجلی چاہیے اور ہم عوام کو یہ بھی فراہم نہیں کر پاتے۔یہ حقائق چند سوال پیدا کرتے ہیں‘ مثلاً کیا چین میں لوگ نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو کیا ان کے دماغ ہم سے بڑے ہیں یا اللہ تعالیٰ نے انھیں دس دس ہاتھ دے رکھے ہیں‘ دوسرا پاکستان پہلا ملک تھا جس نے چین کا دنیا سے تعارف کرایا تھا‘ ہم نے 1971 میں چین کا امریکا سے رابطہ کرایا تھا‘ پی آئی اے دنیا کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے چین کی سرزمین چھو کر دیکھی تھی اور یہ ہم تھے جنھوں نے چین کو پہلے تین طیارے تحفے میں دیے تھے

اور ان میں سے ایک طیارہ ماؤزے تنگ استعمال کرتے تھے اور یہ آج بھی پاکستان کے شکریے کے ساتھ چین کے میوزیم میں کھڑا ہے۔چین کی نیوی کو بھی ہم نے ٹرینڈ کیا تھا اور ڈیمز کی ٹیکنالوجی بھی چین نے ہم سے لی تھی لیکن یہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور ہم کہاں سے کہاں آ گئے‘ کیوں؟ اور تیسرا سوال یہ بڑے بڑے منصوبے چین میں کون بنا رہا ہے؟ کیا یہ سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور مالیاتی ادارے نہیں بنارہے اور کیا یہ پراجیکٹس مکمل ہونے کے بعد بنانے والوں کو احد چیمہ کی طرح قید میں پھینک دیا جائے گا؟

یہ سوال بہت اہم ہیں‘ ہم جس دن ان سوالوں کے جواب تلاش کر لیں گے آپ یقین کریں ہم اس دن چین بن جائیں گے لیکن افسوس ہم سوچنے کے لیے تیار ہیں اور نہ آنکھیں کھولنے کے لیے‘ آپ یقین کریں چینی ہم سے زیادہ ذہین ہیں اور نہ یہ ٹیکنالوجی میں ہم سے آگے ہیں۔ہم آج بھی انھیں بلکہ دنیا کے بڑے سے بڑے ملکوں کو بھی ہرا سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے اور پہلا فیصلہ کام کرنے والوں کی عزت ہے اور ہم یہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ہمیں ایٹمی طاقت کس نے بنایا تھا؟ ڈاکٹر عبدالقدیر نے ‘ یہ نہ ہوتے تو ہم آج ایٹمی طاقت نہ ہوتے لیکن ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ہم نے ٹیلی ویژن پر ان سے معافی منگوائی اور پھر ان کے انتقال کا انتظار کرنے لگے‘

صرف ایک ملاقات ہوئی‘ میں دل سے سمجھتا ہوں اس کے ساتھ غلط ہو رہا ہے اور اس کا حشر دیکھ کر پوری بیوروکریسی کام نہیں کر رہی‘‘ صاحب نے قہقہہ لگایا اور پوچھا ’’چائے پئیں گے یا کافی‘‘ میں 2018کے الیکشنز کے بعد لاہور سے آ رہا تھا‘ میرے ساتھ جہاز میں ایک صاحب بیٹھے تھے۔تعارف ہوا تو پتا چلا وہ ان 56 کمپنیوں میں سے ایک کمپنی کے سربراہ ہیں جو میاں شہباز شریف نے اپنے دور میں پنجاب میں بنائی تھیں‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ کا احتساب شروع نہیں ہوا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’مجھے آج تک کسی نے نہیں بلایا‘‘ میں نے وجہ پوچھی تو وہ بولے ’’ہم نے پانچ سال میں ایک فزیبلٹی رپورٹ کے سوا کوئی کام نہیں کیا تھا چناں چہ ہمارے خلاف کوئی کیس نہیں بنا۔‘‘آپ ملاحظہ کیجیے جس شخص نے پانچ سال میں تنخواہیں اور مراعات اڑانے کے سوا کچھ نہیں کیا وہ مزے کر رہا ہے اور جس نے دن رات ایک کر کے کھربوں روپے کے منصوبے مکمل کر دیے وہ قید میں سڑ رہا ہے لہٰذا پھرآپ خود بتایے کیا ہم چین کا مقابلہ کر سکیں گے؟ چین سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بنا رہا ہے اور یہ بنانے والوں کو میڈل بھی دے گا جب کہ ہم نالی پکی کرنے والوں کو بھی عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں چناں چہ پھر یہ ملک کیسے چلے گا؟ ہمیں بہرحال جلد یا بدیر یہ فیصلہ کرنا ہوگا ہم نے آگے جانا ہے یا پھر ہم نے اسی طرح پڑے پڑے سوکھ جانا ہے۔فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے‘ ہم جتنی جلدی یہ فیصلہ کر لیں گے ہمارے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا ورنہ یہ یاد رکھیں وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا‘ قدرت کی نظر میں کوئی قوم مقدس نہیں ہوتی‘ حضرت داؤد ؑ کی قوم بھی جب وقت کا ساتھ نہیں دیتی تو وہ بھی فنا ہو جاتی ہے‘ ہم کس کھیت کی مولی ہیں‘ ہم وقت کے کون سے کزن ہیں؟

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ہم لے کر رہیں گے آزادی، ہم چھین لیں گے آزادی ٗ مقبوضہ کشمیر کی مسجد سے آزادی کے نعرے گونجنے لگے

میں انتقال کر جاؤں تو میرے تمغے میری قبر پر سجا دینا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔