میں انتقال کر جاؤں تو میرے تمغے میری قبر پر سجا دینا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار سعید آسی (روزنامہ نوائے وقت ) اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔آمر مشرف نے تو امریکی خوشنودی کی خاطر ڈاکٹر خاں کی اقوام عالم میں رسوائی کے اہتمام کی انتہاء ہی کر دی۔ انہیں ایٹمی راز اور ٹیکنالوجی ایران کو منتقل کرنے کا موردالزام ٹھہرایا۔
ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈلوائیں ، انہیں سرکاری ٹی وی کی سکرین پر نمودار کیا اور ان کی زبان سے ان کے ’’جرم‘‘ کا اعتراف کرایا۔ پھر ان کی نظربندی اور قیدِ تنہائی کا سلسلۂ طولانی شروع ہو گیا۔ 2009ء میں ہائیکورٹ نے ان کی نظربندی کالعدم کرتے ہوئے انہیں آزاد کرنے کا حکم دیا مگر…ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ کن دستانے پہنے ہاتھوں نے ان کا آزاد زندگی گزارنا ممکن نہ ہونے دیا
اور وہ اپنے آخری سانس تک عام شہریوں کی طرح اپنے وطن میں آزادانہ گھومنے پھرنے کی حسرت و مایوسی کا اظہار کرتے رہے۔ڈاکٹر خان نے تو خود اپنے ایک شعر میں حقیقتِ حال بیان کر دی تھی کہ …؎گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر ۔۔ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے ۔۔اپنوں کی مہربانیوں کے ڈسے انہی ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی ایک وصیت بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے کہ ’’جب میں فوت ہو جائوں
تو میرے تمغوں کو میری قبر کے سرہانے رکھ دینا‘‘۔ اور میرے شل ہونے والے ذہن کے پردے پر ڈاکٹر قدیر خاں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ان کے چار اکتوبر 2021 ء کے خط نے تو ہلچل مچا کر ذہنی خلجان کے راستے کھول دئیے ہیں۔ یہ خط انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو بھجوایا جس کا ایک ایک لفظ حکمرانوں کی بے اعتنائی کے حوالے سے ان کی مایوسیوں کو اجاگر کرتا نظر آ رہا ہے۔ یہ ان کی حیاتِ فانی میں
ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا آخری خط بن گیا ہے جسے پڑھ کر سوائے سر پیٹنے کے اور کچھ نہیں بن پاتا۔ اس خط کا آخری پیرا ملاحظہ فرمائیے۔ ’’وزیراعظم اور پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے وزراء اعلیٰ میری وفات کی ’’گُڈ نیوز‘‘ سننے کے منتظر ہیں۔ ایسے میں میرے صوبے اور شہر کے وزیراعلیٰ نے میری مزاج پرسی کی۔ میں ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں‘‘۔ اس مراسلے کے سات روز بعد وہ لحد میں اتر گئے۔ ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی توفیق نہ وزیراعظم کو ہوئی نہ پنجاب ، بلوچستان ، خیبرپختونخواہ کے وزراء اعلیٰ کو۔
بھئی خوف کس سے ہے اور سوشل میڈیا پر یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ ہمارے اس قومی ہیرو کی دونوں بیٹیوں کی زبان بندی بھی کر دی گئی ہے۔ میں اس پر پھر سید علی گیلانی کی میّت کا حوالہ دوں تو ’’الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا‘‘۔ ڈاکٹر خان کے ساتھ اس سے بڑا مذاق بھلا کوئی اور ہو سکتا ہے کہ وزیر موصوف شیخ رشید صاحب ان کی قبر اور تدفین کے انتظامات میں پیش پیش نظر آ رہے تھے۔ اِناللہِ واِنا الیہِ راجعُون۔ عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن ۔۔یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ