in

عقلمند عورت

عقلمند عورت

ایک سیٹھ لوگوں کی امانتیں رکھتا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جس زمانے میں بینکوں کا رواج عام نہیں ہوا تھا۔ اس زمانے میں جس انسان پر لوگوں کا اعتماد اور یقین ہوتا تھا کہ یہ آدھی امانت میں خیانت نہیں کریگا اس کے پاس اپنی رقم یا کوئی قیمتی سامان رکھ دیا کرتے تھے ۔

ایک آدی ہیں سفر میں جارہا تھا تو اس نے پانچ ہزار روپیہ امانت کے طور پر اس سیٹھ کے پاس رکھدیا۔ دو تین سال کے بعد جب سفر سے واپس آیا اور اپنی امانت سیٹھ کے پاس لینے گیا تو اس سیٹھ کی نیت خراب ہوگی اور امانت کی رقم دینے میں حیلے بہانے کرنے لگا۔ اسی طرح سے پانچ چھ مہینے گزر گئے، جس نے امانت رکھی تھی وہ بہت پریشان تھا کہ اپنی رقم حاصل کرنے کیلئے کیا کیا جائے ۔ جس سے بھی شکایت کرتا وہ یہی جواب دیتا کہ ہم اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ اتفاق سے ایک عورت تھی

، اس نے اس سے کہا کہ فلاں سیٹھ کے پاس میں نے پانچ ہزار روپیہ امانت کے طور پر دو تین سال پہلے رکھے تھے اب وہ مجھے واپس نہیںکررہا، میں کیا کروں، کوئی صورت مجھ میں آئی ہو تو بتلاو؟ کہ وہ رقم مجھے واپس مل جائے۔ عورت کے دماغ میں ایک ترکیب آئی، اس کے پاس لاکھوں روپے کے زیورات تھے۔ عورت نے اس امانت رکھنے والے سے کہا کہ دیکھو ہمارے زیورات جو لاکھوں روپیہ کے ہیں یہ سب زیور لیکر میں کل صبح اس سیٹھ کے پاس جاؤں گی اور کہوں گی کہ سیٹھ جی میں حج پر جارہی ہوں۔

اور لاکھوں روپے کے زیورات ہیں، ان کو میں آپ کے پاس امانت کے طور پر رکھنا چاہتی ہوں یہ کہ کر میں اس سیٹھ کو اپنے سب زیورات دکھا دوں گی۔ تو وہ لالچ میں آجائے گا۔ ٹھیک اسی وقت آپ اپنی امانت لینے کے لئے سیٹھ کے پاس آجانا۔دوسرے دن وہ عورت وعدے کے مطابق زیورات لیکر سیٹھ کے پاس پہنچ گئی۔ اس سیٹھ کو اپنے سب زیورات دکھانے لگی کہ ہم نے آپ کی بہت شہرت سنی ہے کہ آپ سے بڑھ کر فی الحال ایسا دوسرا انسان کوئی نہیں ہے جس کے پاس لاکھوں روپے کے زیورات رکھے جا ئیں،

میں حج کو جارہی ہوں اور یہ سب زیورات آپ کے پاس امانت رکھنا چاہتی ہوں۔ لاکھوں روپے کے زیورات دیکھ کے سیٹھ کے منہ میں پانی آگیا کہ یہ تو بہت بڑا کام ہو گیا ۔ اسی وقت وعدے کے مطابق وہ آدمی اپنی امانت سیٹھ کے پاس لینے کے لئے آگیا سیٹھ نے اس کو آتے ہوئے دیکھ کر سوچا کہ یہ آدمی ابھی اپنی امانت کا مطالبہ کرے گا اور میں لوگوں کی امانتیں دینے میں خیانت کرتا ہوں، اگر اس عورت کو پتہ چل گیا تو یہ زیورات ہاتھ سے چلے جائیں گے۔ یہ سوچ کر اس عورت پر اپنا اثر ڈالنے کیلئے اس کے بولنے سے پہلے ہی وسیم سے کہا کہ یہ جو آدمی آرہا ہے۔

اس کے پانچ ہزار روپیے ہمارے پاس امانت رکھے ہوئے ہیں، وہ اس کو دید وسیم نے سنتے ہی پانچ ہزار روپئے دیدیئے۔ جب اس آدمی نے اپنی امانت اپنے ہاتھ میں لے لی تو عورت نے اپنے نوکر کو سمجھا رکھا تھا کہ تم ٹھیک اتنے بجے سیٹھ کے گھر آجانا اور مجھے کہنا کہ آپ کو آپ کے خاوند جلد بلارہے ہیں ۔ اس نوکر نے ٹھیک اسی وقت آ کر عورت سے کہا کہ آ پکو آپ کے خاوند بلارہے ہیں ۔ یہ سنگر عورت نے اپنا بستہ بند کر دیا اور اٹھ کر چل دی ، چلتے وقت عورت نے سیٹھ سے کہا کہ بعد میں آؤں گی ۔ عورت کی چالا کی کامیاب ہوگئی۔ سیٹھ بھی اس بات کو مجھ گیا کہ پانچ ہزار روپے نکالنے کیلئے ان لوگوں کی ترکیب تھی۔ جس کو اپنی امانت مل گئی تھی وہ خوشی کے مارے سیٹھ کے مکان کے باہر میدان میں ناچنے لگا، سیٹھ بھی اس کونا چتے دیکھ کر اسی میدان میں آ کر ناچنے لگا، ان دونوں کو ناچتے ہوئے دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ان دونوں کے ناچنے کی کیا وجہ ہے؟

جب سب کو ان کے ناچنے کی وجہ معلوم ہوئی تو کسی نے سیٹھ سے پوچھا کہ سیٹھ بھی اس آدمی کو تو اس کے پانچ ہزار روپے کی امانت ملی وہ اس خوشی میں ناچ رہا ہے ۔ آپ کے ناچنے کی کیا وجہ ہے۔ سیٹھ جی نے جواب دیا کہ مجھے ایک سبق سیکھنے کو ملا کہ زیادہ رقم کی لانے میں آ کر تھوڑی رقم کسی کو واپس نہیں کرنا چاہئے۔ فائدہ:امانت کو جوں کا توں وا پس کرنا واجب ہے، اس کو لے لیا اور و اپیل نہ کرنا حرام ہے۔ ارشاد نبوی ہے: لا ایمان لمن لا امانة له، (و ته مون کامل نہیں جو امانت دار ہیں) لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر ان کے پاس کوئی امانت رکھے ، تو اس کو ادا کر دیں، خیانت نہ کریں۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

انہوں نے تو صرف میٹرک ہی کیا ہے۔۔۔ پاکستانی شوبز انڈسٹری کے وہ اداکار جو بہت کم پڑھے لکھے ہیں

دن میں اس چیز کا 1 چمچ کھالیں