پاکستان کواگر بچانا ہے تو اسکا اب ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے ؟ برسوں قبل ایک بزرگ پاکستانی شہری نے اپنے صحافی بیٹے کو کیا کام کی بات بتائی تھی ؟ جانیے
نامور کالم نگار میاں غفار احمد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اب تو پولی ،دھیلی کا رواج ہی ختم ہوگیا اور ایک روپے کا نوٹ یا سکہ بھی متروک ہوگیا اور آج چھوٹے سے چھوٹا نوٹ دس روپے کا ہے ۔ ہم نے اپنے بچپن میں پولی یعنی چار آنے اور
دھیلی یعنی آٹھ آنے نہ صرف دیکھ چکے ہیں بلکہ ان سے خریداری بھی کرچکے ہیں تاہم آج کی نسل کو اس کرنسی کا کیا پتہ۔ہم نے تو ایک پیسہ بھی دیکھ رکھا ہے جو ایک روپے میں سو پیسے ملتے تھے ۔پانچ پیسے کے ساتھ ایک پیسہ ملا کر آنہ بنتا تھا۔اب یہ سکے اوران کے نام بھی متروک ہوچکے ۔
مگر پولیس کا ’’کچھ نہ کچھ تاں ڈیلی لبھے ‘‘ کا چکر آج بھی اسی شان و شوکت سے جاری و ساری ہے ۔کسی اور کی بات کیا کریں۔ 2018ء کے انتخابات میں میری والدہ محترمہ جو اس وقت بھی 86 سال سے زائد عمرکی تھیں اور گزشتہ دس سال سے چلنے پھرنے سے قاصر ہیں مگر باقاعدہ ضد کرکے وہیل چیئر پر پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے گئیں ۔
1971 ء اور 1977ء کے انتخابات کے 41 سال بعد 2018ء میںانہوں نے اپنے ووٹ کا حق بخوشی استعمال کیا ۔ وہ بہت پر اُمید تھیں کہ اب پاکستان کے حالات بہتر ہوجائیں گے اوربدعنوانی کا خاتمہ ضرور ہوگا ۔ مگر چند ماہ بعد ہی وہ اس حکومت سے مایوس ہوگئیں اور اسی نتیجے پر پہنچ چکی ہیں جس پر 1982ء میں میرے نانا پہنچے تھے ۔ میرے نانا کو انگریزی اخبار پڑھنے کا شوق تھا اور اخبار پڑھ کر وہ باقاعدہ ان خبروں پر تبصرہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے۔’
’ عبد الغفارصاحب!ہم تو اپنی زندگی پوری کرچکے ہم نے تو ہونا نہیں ۔ایک بات یاد رکھیں پاکستان بچانا تو اسے انگریزوں کو ٹھیکے پر دے دیں۔’’مُسلا ( مسلمان ) ماتحت بہت اچھا ہے لیکن افسر بہت ہی برا۔‘‘ اسکے پاس کمانڈ کی تربیت ہی نہیں ۔صدیوں سے ’’جی حضوری ‘‘ اسکے خون میں شامل ہے ، اسکی حرص کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اب ہمیں چاہئے ہر محکمے کی سربراہی کسی ریٹائرڈ انگریز کو دے دیں۔پاکستان کو بچانے کا فی الحال تو یہی اکلوتا راستہ ہے ۔‘‘
اب بالکل یہی باتیں میری والدہ کرتی ہیں کہ انگریز دور میں نسبتاً امن تھا جرم کا تصور ہی محال تھا۔عورتیں بازاروں میں بھی اسی طرح محفوظ تھیں جیسے گھروں میں ۔ اب تو لگتا ہے پاکستان جیسے ملک میں اُمیدیں ہوتی ہی ٹوٹنے کیلئے ہیں مگر جس بھونڈے طریقے سے گزشتہ تین سال سے عوام کی اُمیدیں ٹوٹ رہی ہیں ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور اب تو بزرگ کہتے ہیں کہ آج اسی طرح کی مایوسی ہے جیسی مشرقی پاکستان کے علیٰحدہ ہونے کے بعد اس قوم میں تھی ۔شاکر شجاع آبادی نے کیا خوب کہا تھا۔
؎ اے پاکستان دے لوکو پلیتاں کو مکا ڈیوو ۔۔۔نئیں تاں ایہہ جہیں وی ناں رکھے اے ناں اوں کوں ولا ڈیوو ۔۔۔اس شعرکا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے ۔ ’’اے پاک خطے کے رہنے والو ، پلیدوں (ناپاکوں) کو مٹا دو یا پھر جس نے بھی اس کا نام پاکستان رکھا ہے یہ نام اسے واپس لوٹا دو ۔‘‘