ٹیوشن پڑھنے والا جوان لڑ کا دیکھ کر میرق حسن دیکھ کے بے قابو ہو گئی میں اس کو کمرے میں لے کر چلی گئی
ہماری دلہن نے آج کیا پکا یا ہے اپنے ہاتھوں سے سر تاج آپ کی فر ما ئش تھی گوشت اور اخروٹ کا حلوہ مان کئے شادی کو سات دن ہوئے تھے کہ ماجد نے فر ما ئش کر دی کل تمہارے ہاتھ کا بنا ہوا کھا نا کھاؤں گا جی ضرور عفت شر ماتے ہوئے بولی ایک ہفتے میں ہی اس نے اپنے خاوند کی ہر پسند و نا پسند معلوم کر لی تھی
عفت ان عورتوں میں سے تھی جو اس دنیا میں جنت کی حوروں کا روپ ہوتی ہیں خالص مشرقی بیوی فر ما نبردار اور جان نثاری کی مثال عفت نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سے کچن سے باہر نہیں نکلی تھی ماجد بستر میں پڑا سو رہا تھا گھر میں دونوں کے سوا اور تھا ہیں کون ایک بوڑھا ملازم با با جی جو عرصہ سے اسی گھر میں تھا۔
کل سے وہ بھی چھٹی پر تھا سورج طلوع ہوئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی عفت نے کھا نا تیار کے دسترخوان سجا دیا ما جد کی آ نکھ پاؤں پر ہلکی سی گد گدی سے کھلی عفت سامنے کھڑے مسکر ا رہی تھی سر تاج کھا نا تیار ہے کھا نا کیسا کھا نا با با جی تو کل چھٹی لے کر چلے گئے تھے ماجد حیران ہوتے ہوئے بو لا آپ کی عفت اپنے ہاتھوں سے بنا یا ہے آپ نے تو فر مائش کی تھی ہاں یادآ یا ماجد سر پر ہاتھ مارتے ہوئے چھلانگ لگا کر بستر سے باہر نکل آ یا۔
کیا خوشبو ہے بس آ ئندہ سے با با جی کی چھٹی عفت نے سالن کے ڈھو نگے سے ڈھکن اٹھا یا تو ماجد خوش ہو گیا عفت نے پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑ ھا یا ہی تھا کہ دروازہ پر دستک ہوئی ماجد کے دل میں نہ جانے کیا آیا کہ عفت سے کہنے لگا بیگم لا و سالن نکا لتا ہوں عفت اٹھی او ر جا کر بولی کون ہے
دستک دینے والے کو شاید عفت کی آ ہستہ آواز نہ سنائی دی یا کوئی اور وجہ تھی کہ وہ خاموش رہا ماجد کی نظر عفت کی طرف ہی تھی اس نے اشارہ کیا کہ دروازہ کھول کر دیکھ لو دروازہ کھو لا تو ایک نوجوان کھڑا دکھائی دیا عفت کو سامنے کھڑا دیکھ کر نوجوان نے نظریں جھکا لیں بہن کئی دن سے بھو کا ہوں اللہ کے لیے کچھ کھا نے کو دے دیجئے عفت نے اپنی ساس سے مل کر کھا نا تیار کیا رضوان بھی آ گیا عفت پلیٹوں میں سالن نکال رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی رضوان اٹھنے ہی لگا تھا کہ دروازے پر پھر دستک ہوئی اور باہر سے آواز آئی اللہ کے نام پر کچھ کھانے کو دے دو رضوان بیٹا یہ سالن اور روٹیاں فقیر کو دے آ ؤ ۔ زینت خاتون اپنے بیٹے سے مخاطب ہوئی ٹھہرے امی جان میں جاتی ہوں۔ کسی انجانے احساس کے تحت عفت اٹھ کھڑی ہوئی کھا نا لے کر دروازے تک پہنچیں اور دروازہ کھول کر کھا نا با ہر موجود فقیر کو دینے لگی تھی۔
کہ چکرا کر گر گئی برتن گرنے کی آواز سن کر ماجد بھا گتے ہوئے دروازے پر پہنچا عفت جو اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھاپئے رو رہی تھی کیا ہو رضوان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے۔ کیا بات ہے کیوں رو رہی ہو۔ زینت خاتون نے کہا تھا کہ بیٹا میں نے ساری زندگی اپنے گھر سے کسی فقیر کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیا گھر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے میں فقیر کو ضرور دیتی ہوں۔ شادی کے ایک سال بعد میرے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا میں بہت خوش تھی کہ مجھ اتنا اچھا اور نیک شوہر ملا ہے میرا بہت خیال
رکھتا ہے میری ساس بھی میری ماں کی طرح ہے۔ دو دن ہو گئے تھے ماجد اب میرے گھر کھا نا لینے نہیں آتا تھا کچھ دن ہوئے تو مجھے میرے شوہر نے کہا کہ ماجد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور وہ زخمی حالت میں ہسپتال جاتے ہوئے فوت ہو گیا ہے۔ ماجد کے انتقال کا مجھے دکھ تو ہوا تھا لیکن اس نے جو ایک فقیر کے ساتھ کیا تھا اس کو سزا تو ملنی تھی اس دنیا میں کسی کو اپنے سے کمزور نہ سمجھو غریب ہو یا امیر ہو سب اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے انسان ہیں۔