کیا آپ کو پتا ہے کہ سنہ 1700 سے 1900 کے درمیان دنیا کی آبادی میں ایک چوتھائی اضافے کا سبب آلو تھا
لاہور: (ویب ڈیسک) آلو آج پوری دنیا میں سب سے مقبول سبزی ہے ، بہت سے لوگوں کیلئے تو آلو کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال ہے، دنیا کا ہر ملک اور ہر قوم آلو کے محبوں میں شامل ہے، اگر آلو کی فصل نہ ہو تو دنیا کی بڑی آبادی کا ویسے ہی بھوک سے صفایا ہوجائے گا۔
لیکن آلو ہمیشہ سے اتنا مقبول نہیں تھا جتنا آج پسند کیا جاتا ہے بلکہ اس نے اپنی افادیت کے باعث آہستہ آہستہ شہرت پائی اور آج اس مقام تک پہنچ گیا کہ دنیا کی سب سے بڑی غذائی ضرورت بن گیا۔ آلو کا اصل وطن جنوبی امریکا کا خطہ انڈیز ہے جہاں اسے آٹھ ہزار برس سے بھی پہلے گھریلو استعمال میں لایا گیا تھا۔ آلو کو پہلی بار لیما سے جنوب مشرق میں ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع انڈیز میں لیک ٹِیٹِیکاکا کے قریب گھریلو استعمال میں لایا گیا تھا۔
اس کے بعد یہ یہاں مقبول ہوتا چلا گیا اور مقامی لوگوں کی روز مرہ خوراک کا اہم جزو بن گیا۔ اس دور میں اسے خشک کرکے ایک خاص قسم کی غذا تیار کی جاتی تھی، جو کئی برس بلکہ دہائیوں تک محفوظ رہتی تھی۔آج کے آلو کے جدِ امجد کی 151 جنگلی اقسام اب بھی انڈیز میں پائی جاتی ہیں۔ سنہ 1253 میں اس خطے پر سپین نے یلغار کی اور مقامی حکومت کو ختم کردیا لیکن آلو کی کاشت کا سلسلہ جاری رہا۔
حملہ آور دیگر اجناس، مثلاً ٹماٹر، ناشپاتی اور مکئی کی طرح آلو کو بھی بحرِ اقیانوس کے پار لے آئے۔ مورخین اسے گریٹ کولمبین ایکسچینج یا عظیم کولمبیائی تبادلہ قرار دیتے ہیں۔ یہ پہلی بار تھا جب آلو نے برِ اعظم امریکا سے باہر سفر کیا تھا۔ آئرلینڈ میں آلو کو زیادہ سازگار موسم میسر آگیا، جہاں ٹھنڈے مگر کُہر سے خالی خزاں نے اسے پکنے کا موقع دیا۔یہاں آلو کی فصل 1580 کی دہائی میں سپین سے لائی گئی۔
آلو آئرلینڈ سے برطانیہ اور پھر شمالی یورپ پہنچا۔ سنہ 1650 میں یہ جرمنی، پروشیا، 1740 میں پولینڈ اور 1840 میں روس میں پایا جانے لگا۔ سنہ 1560 کے بعد یورپ میں شروع ہونے والی ہر عسکری مہم نے آلو کے زیرکاشت رقبے میں اضافہ کیا اور یہ سلسلہ جنگ عظیم دوئم تک جاری رہا۔ محققین کے مطابق سنہ 1700 سے 1900 کے درمیان دنیا اور شہروں کی آبادی میں ایک چوتھائی اضافے کا سبب آلو تھا