اس شاندار تجویز کو پھر زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ؟
لاہور (ویب ڈیسک) فرض کریں میرے حلقے سے تین مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار حصہ لے رہے ہوں اور ان کا کردار ایسا ہو کہ میں ان میں سے کسی ایک کو بھی ووٹ دینا پسند نہ کروں۔ اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کیا ریاست نے مجھے کوئی آپشن دے رکھا ہے
یا میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ یا توان تین نابغوں میں سے کسی ایک کو ووٹ دے کر اپنا نمائندہ بنا لوں یا پھر بے بسی سے اس سارے معاملے سے لاتعلق ہو کر گھر بیٹھ کر کڑھتا رہوں ؟الیکشن کمیشن نے2013 کے انتخابات سے پہلے اس سوال پر غور و فکر کر کے اس کا حل نکالا تھا۔ اس نے کہا کہ ہم بیلٹ پیپر میں ایک اضافی خانہ متعارف کرانے جا رہے ہیں۔شیر ، بلے، سائیکل، کتاب اور تیر وغیرہ کے انتخابی نشان کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کو یہ آپشن بھی دے رہے ہیں کہ وہ چاہیں تو ان میں سے کسی کو بھی ووٹ نہ دیں۔بیلٹ پیپر میں ایک اضافی خانہ ہو گا جس میں لکھا ہو گا کہ میں ان تمام امیدواران میں سے کسی ایک کو بھی اس قابل نہیں سمجھتا کہ ووٹ دوں۔اس خانے میںNOTA لکھا ہو گا۔ یعنی None of the Above.۔ الیکشن کمیشن نے تجویز دی کہ اگر 51 فیصد یا اس سے زیادہ ووٹNOTA کو مل گئے تو الیکشن کالعدم تصور ہو گا۔الیکشن کمیشن نے اتفاق رائے سے یہ معاملہ وزیر اعظم کو بھیج دیا کہ وہ اسے منظور کر کے صدر پاکستان کو بھیجیں اور صدر پاکستان ایک آرڈی ننس کے ذریعے اسے نافذ کر دیں۔جب یہ سمری وزیر اعظم ہاؤس پہنچی تو وہاں سکوت مرگ طاری ہو گیا۔ معاملہ یوں دبا دیا گیا کہ یہ ٹاک شوز اور کالموں کا موضوع تک نہ بن سکا۔کاغذات نامزدگی میں ترمیم کے معاملے پر جس طرح سب نے چپکے چپکے اتفاق کر لیا
اسی طرح یہاں بھی سب نے چپکے چپکے طے کر لیا کہ ووٹر کو اتنی آزادی نہ دو کہ ہمارے لیے مصیبت کھڑی ہو جائے۔چنانچہ یہی طے پایا کہNOTA کا خانہ بیلٹ پیپر میں نہیں ہو گا۔الیکشن کمیشن نے بھی کمال فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تجویز کو ایک گناہ سمجھ کر بھلا دیا۔ نہ وہ اس تجویز کو عوام کے سامنے لایا۔ نہ ہی اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی کوشش کی کہ جناب ہم نے یہ تجویز دی ہے مگر حکومت نے اسے اندھے کنویں میں ڈال دیا ہے تو آپ سے استدعا ہے اس پر مناسب حکم جاری فرمائیے۔الیکشن کمیشن آج بھی اہل سیاست کی فرمانبرداریوں میں لگا ہوا ہے اور تازہ ترین فیصلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر امیدواران سے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جو بیان حلفی لیا جائے گا اسے ویب سائٹ پر نہیں ڈالا جائے گا۔بلکہ پورا اہتمام کیا جائے گا کہ عوام کی اس پر نظر نہ پڑے۔اب آئیے اس پہلو کی جانب کہ الیکشن کمیشن نے NOTA کی یہ تجویز کیوں دی تھی؟ اس کی تین وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ اس صورت میں ٹرن آؤٹ بڑھتا اور لوگوں کی اکثریت جو لاتعلق ہو کر گھر بیٹھ جاتی ہے وہ گھر سے نکلتی اور آکر کہتی کہ ان میں سے کوئی امیدوار ہمیں قبول نہیں ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جب سیاسی قیادت کو معلوم ہوتا کہ عوام کے پاس اب NOTA کا آپشن موجود ہے تو وہ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت زیادہ محتاط ہو کر فیصلے کرتے اور نسبتا
بہتر امیدواران میدان میں اتارے جاتے۔تیسری جہ یہ تھی کہ اگر لوگ بھاری تعداد میں ووٹ ڈالنے میں آتے تو اس سے جعلی ووٹ ڈالنے کا عمل رک جاتا یا انتہائی کم ہو جاتا۔کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ جو لوگ ووٹ ڈالنے نہیں آتے ان کے جعلی ووٹ بھگتا دیے جاتے ہیں۔یہ تجویز کوئی انوکھی تجویز نہیں تھی۔دنیا کے بہت سے ممالک میں NOTA متعارف کرایا جا چکا ہے۔ کولمبیا، یوکرائن، برازیل، فن لینڈ، سپین، سویڈن ، چلی، فرانس ، بلجیم ، امریکہ کی بعض ریاستوں اور حتی کہ بنگلہ دیش اور بھارت میں یہ آپشن مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ بھارت میں الیکشن کمیشن نے اسے متعارف کرانا چاہا تو حکومت نے یہ تجویز رد کری۔ چنانچہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا اور سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دے دیا کہ وہ اس آپشن کو بیلٹ پیپر میں شامل کرے۔چنانچہ 2014 کے عام انتخابات میں ساٹھ لاکھ (6000000)ووٹرز نے NOTA پر مہر لگائی۔بھارت میں معاملہ سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں جا سکتا؟ الیکشن کے ہنگاموں میں قوم کو یہ اقوال زریں تو سنائے جاتے ہیں کہ ووٹ ضرور ڈالیے اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیجیے لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ اگر کوئی آدمی کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینا چاہے تو اس کے پاس کیا آپشن ہو گا؟ ووٹ ڈالنا اگر عوام کا آئینی حق ہے تو کیا NOTA کا آپشن ان کے بنیادی جمہوری حقوق میں شامل نہیں ہے؟ کیا اس جبر کا کوئی جواز ہے کہ عوام کے آپشن
زیادہ حلقوں سے حصہ لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ ثابت کرنا چاہتا ہو میں بڑا مقبول ہوں پانچ حلقوں سے کامیاب ہوا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی حلقے میں ٹکٹ کا فیصلہ نہ کر سکا ہو اور پارٹی کو تقسیم سے بچانے کے لیے خود امیدوار بن بیٹھا ہو۔لیکن اس سب کی سزا عوام کو کیوں دی جائے؟بھارت میں بھی پہلے ایسا ہی تھا کہ جو جتنے حلقوں سے چاہے انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ پھر وہاں عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 33 میں ترمیم کی گئی کہ ایک آدمی دو سے زیادہ حلقوں سے امیدوار نہیں بن سکتا۔ اور اب 2019 کے انتخابات کے لیے بھارتی الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے کہ ایک آدمی کو صرف ایک حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔بھارت کا الیکشن کمیشن یہ سب کر سکتا ہے تو ہمارا الیکشن کمیشن کیوں نہیں کر سکتا؟بہت سے دیگر راستے بھی موجود ہیں۔ کسی کے جیتنے کے بعد حلقہ چھوڑنے کی صورت میں دوسرے نمبر پر آنے والے کو بھی کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس صورت میں ضمنی انتخابات کے تمام اخراجات بشمول وہاں تعینات اہلکاروں کی کم از کم ایک دن کی تنخواہ اس امیدوار سے وصول کیا جائے جس کے حلقہ چھوڑنے کی وجہ سے ضمنی الیکشن کروانا پڑے۔انتخابی قوانین میں کوئی اصلاح تو کیجیے۔ یہ ملک چند سیاسی رہنماؤں کی چراگاہ تو نہیں کہ ہم اپنے وسائل اور قومی خزانہ ان انوکھے لاڈلوں کے ایڈونچر کے لیے برباد کرواتے رہیں۔سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کہاں ہے؟ وہ ایک آزاد ادارہ ہے یا چند سیاسی شخصیات کا مزارع؟