پرویز الٰہی نے دو بار آرمی چیف کو فون کیا اور پوچھا (ن) لیگ کیساتھ جائوں یا پی ٹی آئی کیساتھ؟جنرل قمر جاوید باجوہ نے جواب دیاکہ ۔۔۔
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی جاوید چوہدری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔میں نے سالک حسین سے پوچھا ’
’چودھری پرویز الٰہی کو جب آسانی کے ساتھ وزارت اعلیٰ مل رہی تھی‘ یہ خوش بھی تھے تو پھر انہیں بنی گالا جانے اور اپنا وعدہ توڑنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ یہ ہنس کر بولے ’’یہ ہمارے لیے بھی حیران کن تھا‘ 28مارچ کے دن بارہ بجے تک تمام معاملات ٹھیک چل رہے
تھے‘پرویز صاحب کی گیارہ بجے اسحاق ڈار سے ٹیلی فون پر بات ہوئی‘انہوں نے ڈار صاحب کا شکریہ ادا کیا اور فیصلہ ہوا شام کو میاں نواز شریف بھی فون کریں گے لیکن پھر مونس الٰہی نے بتایا پی ٹی آئی کا وفد تھوڑی دیر میں آ رہا ہے‘ والد صاحب نے کہا‘ یہ اب کیا لینے آ رہے ہیں؟ پرویز صاحب کا جواب تھا ہن اینا نوں مگروں لان واسطے مل لینے آں (ہم ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے مل لیتے ہیں) تھوڑی دیر میںپرویز خٹک‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر آ گئے
‘ ہم سب ان سے ملے‘ وہاں وجاہت حسین‘ طارق چیمہ‘ مونس الٰہی اور حسین الٰہی بھی موجود تھے‘ طارق چیمہ کی شاہ محمود سے تلخ کلامی ہو گئی‘ چیمہ صاحب نے صاف کہہ دیا‘ میںعمران خان کو ووٹ نہیں دوں گا‘ خواہ کچھ بھی ہو جائے‘ پرویز صاحب نے بھی صاف انکار کر دیا اور یوں یہ وفد مایوس واپس چلا گیا لیکن شاہ محمود قریشی جاتے جاتے پورچ میں مونس الٰہی کو سرگوشی میں کہہ گئے‘ طارق چیمہ آپ کا کام خراب کر دیں گے‘
ہم نے یہ سرگوشی سن لی‘ گھنٹے بعد مونس الٰہی نے سب کو بتایا‘ ملٹری سیکرٹری کا فون آیا ہے‘ وزیراعظم پرویز الٰہی سے بنی گالا میں ملنا چاہتے ہیں‘ والد صاحب اور چودھری وجاہت کا ردعمل تھا ہمیں اب ملنے کی کیا ضرورت ہے؟ہماری بات پکی ہو چکی ہے‘ ہم پی ڈی ایم کے امیدوار ہیں‘ پرویز صاحب کا جواب تھا‘ ہم عمران خان سے مل کر اس سے بھی پیچھا چھڑا لیتے ہیں‘ والد صاحب انہیں روکتے رہے لیکن یہ نہ مانے‘ یہ باپ بیٹا جب جانے لگے تو شجاعت صاحب نے ان سے کہا‘
آپ دونوں اس کے ساتھ کوئی وعدہ نہ کرنا‘ دونوں نے کہا‘ بالکل ٹھیک‘ یہ جب گاڑیوں میں بیٹھنے لگے تب بھی والد صاحب نے پرویز صاحب کو بلایا‘وہ نہیں آئے‘ مونس آیا اور والد نے اس سے کہا‘ کوئی وعدہ نہ کرنا یوں یہ چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد اے آر وائی پر ٹکرز چلنے لگے اور ہم سب نے سر پکڑ لیے‘وجاہت صاحب شدید غصے میں تھے‘ پرویز صاحب واپس آ کر سیدھے اپنے کمرے میں گئے اور دروازہ اندر سے لاک کر کے سو گئے‘یہ دس بجے تک سوتے رہے‘ مونس الٰہی نے ہمیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے پاس کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی‘ پرویز الٰہی رات دس بجے کمر
سے باہر آئے تو یہ مکمل طور پر نچڑے ہوئے مایوس انسان تھے‘ ان کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرہ اترا ہوا تھا‘ یہ ہمارے سامنے صوفے پر ڈھیر ہو گئے اور سر جھکا لیا‘ شجاعت صاحب نے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے صرف اتنا کہا‘میں کنفیوز ہو گیا تھا اور یہ اس کے بعد خاموش ہو گئے‘ بہرحال چودھری ظہور الٰہی کا خاندان ٹوٹ گیا‘‘۔میں نے ان سے پوچھا ’’کیا اس دن کسی کا فون آیا تھا جس کی وجہ سے چودھری پرویز الٰہی نے اپنا ارادہ بدل دیا؟‘‘چودھری سالک حسین کا جواب تھا ’’ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہاں البتہ پرویز الٰہی صاحب نے دو بار آرمی چیف کو فون کیا تھا‘پہلے دن جب ن لیگ کا وفد ہمارے گھر آیا اور دوسرے دن جب پی ٹی آئی کے لوگ آئے تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’اور بات کیا ہوئی تھی؟‘‘ سالک حسین کا جواب تھا
’’جنرل قمر جاوید باجوہ نے دونوں مرتبہ جواب دیا تھا یہ آپ کا اپنا سیاسی فیصلہ ہے‘ ہم سیاسی معاملات سے الگ ہو چکے ہیں‘ ہم آپ کو مشورہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں‘ آپ اپنا فیصلہ خود کریں‘‘پی ٹی آئی میں پولیٹیکل سپیس زیادہ ہے‘ یہ وہاں چودھری پرویز الٰہی کے بعد وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں لہٰذا یہ پی ڈی ایم کے مذاکرات میں بھی ان ایزی ہو جاتے تھے‘ ان کے حکومت کے ساتھ بھی آخری وقت تک رابطے رہے تھے لہٰذا یہ چودھری پرویز الٰہی کو کھینچ کر اُدھر لے گئے‘‘میں نے پوچھا ’’یہ بات ناقابل فہم ہے پرویز الٰہی جب پی ڈی ایم کے وزیراعلیٰ بن رہے تھے تو پھر یہ اچانک کیسے بدل گئے؟‘‘ سالک حسین کا جواب تھا ’
’ہم خود حیران ہیں لیکن اس گیم کے اصل آرکی ٹیکٹ مونس الٰہی ہیں‘ یہ شاید محسوس کر رہے تھے ن لیگ میں ان کی گنجائش کم ہو گی‘میں نے پوچھا ’’چودھری وجاہت آخری وقت تک آپ کے ساتھ تھے‘ یہ ان کے ساتھ کیوں مل گئے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’چودھری شجاعت بوڑھے اور علیل ہیں‘ شاید وجاہت فیملی ان کے بعد چودھری ظہور الٰہی کی لیگیسی کیری کرنا چاہتی ہے تاہم یہ درست ہے 28 مارچ کی رات تک
یہ چودھری پرویز الٰہی اور مونس سے شدید ناراض تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ اور طارق چیمہ نے 11 اپریل کو پی ڈی ایم کو ووٹ دیا‘