حضرت سید عبداللہ شاہ غازیؒ کی زندگی اور شہادت سے جڑے حیران کن واقعات
حضرت سید عبداللہ شاہ غازی ؒ کو والی کراچی بھی کہا جاتا ہے۔ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ان کی کرامات کی وجہ سے کراچی سمندری طوفانوں سے بچا ہوا ہے۔ صوفیاء کرام، اولیاء اور بزرگان دین اللہ کی طرف سے محبت کے زریعے انبیاء کرام کے کام کو تکمیل دیتے ہیں اور یہ مختلف علاقوں میں اللہ کی طرف سے معمور کئے جاتے ہیں۔ حضرت سید عبداللہ شاہ غازی کی تاریخ انتہائی دلچسپ ہے آئیے جانتے ہیں۔
آپ ؒ نے سندھ میں جب اپنے قدم رکھے تو ایک پہاڑ جس پر آپ کا مزار ہے وہ سمندر کے پانی میں گھرا ہوا تھا۔ پیدل چل کر پہاڑ پر جانا مشکل تھا وہ آپ کے چلے کی جگہ تھی۔ کہا جاتا ہے اور عام مشہور بھی ہے کہ آپؒ نے سمندر کو حکم دیا پیچھے ہٹ جاؤ سمندر پیچھے ہٹ گیا۔ یوں سمندر نے زمین چھوڑ دی یعنی سمندر پر بھی ان کی حکمرانی تھی۔ کراچی والوں کا خیال ہے کہ ان ہی کی دعاؤں سے کراچی سمندری آفات سے بچا ہوا ہے یہ شاید اس شہر کی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہاں بسایا۔
حضرت سید عبداللہ شاہ غازیؒ کی ولادت با سعادت اٹھانویں ہجری مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ آپؒ نسبتاً سید سادات ہیں آپ کے پر دادا حضرت سید حسن مثنیٰ بن امام حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس طرح آپ حسنی حسینی کہے جاتے ہیں۔ آپؒ کا لقب “الاشتر “تھا یعنی اونٹ چلانے کا ماہر۔ آپؒ کا شجرہ مزار پر نسب ہے۔ آپ ؒ کی زندگی جہاد فی سبیل اللہ میں گزری۔ مجاہد ہونے کے سبب آپ کو غازی کا لقب ملا۔ آپؒ نے اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد اور اس وقت کے مشہور محدث حضرت محمود زکیاء ؒسے لی۔
آپ ؒ 138 ہجری میں سندھ تشریف لائے۔ سندھ میں بے شمار صوفیاء کرام دعوت تبلیغ کے لئے آئے۔ آپ خلیفہ منصور عباسی کےعہد حکومت میں سندھ آئے۔ آپ کے وقت عباسیوں اور علویوں کے مابین خلافت کی کشمکش جاری تھی۔ اس وقت آپ گھوڑوں کے تاجر کے طور پر سندھ میں داخل ہوئے تھے، خلافت کی وجہ سے سادات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اس لئے آپؒ نے دین کی تبلیغ کے لئے یہ راستہ اپنایا تاکہ حکمرانوں کی مخالفت سے بچے رہیں اور دین کا کام بھی جاری رکھیں۔ لوگ جوق در جوق آپ کی دعوت تبلیغ میں داخل ہونے لگے۔
اولیاء اور صوفیا کرام کا پیغام تو محبت ہوتا ہے انھیں اقتدار سے کیا لینا دینا۔ اس وقت کے سندھ کے گورنرعمر بن حفس کو ان کے خلاف بھڑکانے کی بہت کوشش کی گئی یہاں تک کہ جب بغداد میں آپ ؒ کے والد عباسی حکومت کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے تو وہاں سے گورنر سندھ کو آپؒ کو جلد ازجلد گرفتار کر کے خلیفہ منصور کے دربار میں حاضر کرنے کا حکم جاری کیا گیا لیکن گورنر سندھ جو خود آپؒ کے اسیر تھے انھوں نے آپؒ کو سندھ کی ساحلی پٹی پر واقع ریاست بھیجنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہاں کا راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا تاکہ آپؒ کی باحفاظت اپنا کام جاری رکھیں۔
راجا نے آپؒ کی انتہائی تعظیم کی اور اس طرح تبلیغ جاری رہی۔ گورنر حفس کو اس حرکت کی بناء پر معزول کر دیا گیا اور نئے گورنر حشام بن عمر کو نیا گورنر بنایا گیا لیکن وہ بھی سادات کی تعظیم کرنے والا تھا۔ اسی دوران سندھ کے ایک علاقے میں حکومت کے خلاف بغاوت ہو گئی۔ گورنر نے اس بغاوت سے نمٹنے کے لئے اپنے بھائی سفیر بن عمر کو بھیجا۔ ساحلی علاقے میں حکومتی لشکر نے آپؒ کے لشکر کو باغیوں کا لشکر سمجھ کر حملہ کر دیا آپؒ جنگ نہیں چاہتے تھے لیکن اسی لڑائی میں آپؒ کو شہید کر دیا گیا۔اس حوالے سے جو ایک روایت عام ہے وہ یہ کہ شہادت کے بعد
آپؒ کے مرید آپؒ کا جسد خاکی لے کر اسی علاقے میں روپوش ہو گئے یہاں پینے کا پانی میسر نہیں تھا ایک دن آپؒ اپنے ایک مرید کے خواب میں آئے اور چشمے کی بشارت دی یہ وہ ہی چشمہ ہے جو آج بھی مزار کے نیچے جاری و ساری ہے، سمندر کے دامن میں میٹھے پانی کا چشمہ ایک معجزہ ہی ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے چنے ہوئے بزرگوں کو نوازتا ہے۔ آپؒ کی شہادت ایک سو اکاون ہجری میں ہوئی۔ آج بھی آپؒ کے عقیدت مندوں کا آپؒ کے مزار پر تانتا بندھا ہوا ہوتا ہے۔ یہ مزار کراچی کے لینڈ مارک کی حیثیت رکھتا ہے۔
راجا نے آپؒ کی انتہائی تعظیم کی اور اس طرح تبلیغ جاری رہی۔ گورنر حفس کو اس حرکت کی بناء پر معزول کر دیا گیا اور نئے گورنر حشام بن عمر کو نیا گورنر بنایا گیا لیکن وہ بھی سادات کی تعظیم کرنے والا تھا۔ اسی دوران سندھ کے ایک علاقے میں حکومت کے خلاف بغاوت ہو گئی۔ گورنر نے اس بغاوت سے نمٹنے کے لئے اپنے بھائی سفیر بن عمر کو بھیجا۔ ساحلی علاقے میں حکومتی لشکر نے آپؒ کے لشکر کو باغیوں کا لشکر سمجھ کر حملہ کر دیا آپؒ جنگ نہیں چاہتے تھے لیکن اسی لڑائی میں آپؒ کو شہید کر دیا گیا۔اس حوالے سے جو ایک روایت عام ہے وہ یہ کہ شہادت کے بعد آپؒ کے مرید آپؒ کا جسد خاکی لے کر اسی علاقے میں روپوش ہو گئے
یہاں پینے کا پانی میسر نہیں تھا ایک دن آپؒ اپنے ایک مرید کے خواب میں آئے اور چشمے کی بشارت دی یہ وہ ہی چشمہ ہے جو آج بھی مزار کے نیچے جاری و ساری ہے، سمندر کے دامن میں میٹھے پانی کا چشمہ ایک معجزہ ہی ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے چنے ہوئے بزرگوں کو نوازتا ہے۔ آپؒ کی شہادت ایک سو اکاون ہجری میں ہوئی۔ آج بھی آپؒ کے عقیدت مندوں کا آپؒ کے مزار پر تانتا بندھا ہوا ہوتا ہے۔ یہ مزار کراچی کے لینڈ مارک کی حیثیت رکھتا ہے۔