پرتھوی کے جواب میں غوری
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار عبدالرافع رسول اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔گذشتہ روزاتوارکوعلی الصبح مسلم ہیرو اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان داغ مفارقت دے گئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ تین برس قبل جب مجھے عصر پاکستان کے اس مایہ نازایٹمی سائنسدان اور جوہری ہتھیار کے خالق ڈاکٹرعبد القدیر خان صاحب سے ملاقات
کاشرف ملا۔یہ ملاقات میرے دوست اور ڈاکٹرعبد القدیر خان کی ٹیم کے اولین ساتھی ڈاکٹرالطاف کی وساطت سے ہوئی۔اس ملاقات میں میرے ہمراہ ڈاکٹرالطاف اور برخوردار فرزنداحافظ اویس رسول بھی تھے۔ ملاقات دراصل میری کتاب ’’کشمیرعزیمتوںں کی سرزمین‘‘ پرڈاکٹر اے کیوخان کی تقریر لکھوانے کیلئے طے تھی ۔پوری چھان پھٹک اور (verification)مکمل ہونے کے بعد ڈاکٹرعبد القدیر خان صاحب تک رسائی ممکن ہوئی ۔
ان کے دولتخانے کی طرف جانے والی راہ پرلگے حفاظتی انتطامات کے تمام حصار عبور کر کے جب میں ڈاکٹر صاحب کے دولتخانہ پہنچا توایسالگاکہ ایک شیرنراپنی کچھار میں ہے ۔ ڈاکٹرعبد القدیر خان صاحب کے ٹیبل پرکتاب کامسودہ رکھنے اورفوٹو سیشن کے بعدکشمیرکی صورتحال پرتفصیلی گفتگوہوئی ۔دوگھنٹے پرمحیط اس ملاقات میں کشمیرکی دردبھری کہانی سن کرڈاکٹر صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھرغمگین اوردل گرفتہ لہجے میں فرمایا جب یہ طے ہے کہ نہ چاہنے کے باوجود بھی کشمیرکے مسئلے پر پاکستان کوہندوستان سے لڑائی لڑناپڑے گی تواس کی پہل پاکستان آج ہی کیوں نہیں کرتاتاکہ کشمیری مسلمانوں کوہندوسامراج کے دست ظلم سے بچایاجاسکے۔
28مئی 1998 کو ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے بعدمیںصوبہ بلوچستان میں چاغی کے مقام پر6 کامیاب تجرباتی ایٹمی تجربے کرکے بھارت کے غرور کو خاک میں ملادیا تھااورپورے عالم کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ یوں آپ پوری دنیا میں مقبول عام ہوئے۔ اورجب بھارت نے پرتھوی کا تجربہ کیا تو پرتھوی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ہندوستان میں دہلی اور اجمیر کا راجہ تھا، جسے شہاب الدین غوری نے شکست دی تھی۔ چنانچہ محسن پاکستان ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے پرتھوی کے جواب میں غوری بنایا ۔
مغربی دنیا نے پروپیگنڈے کے طور پر پاکستانی ایٹم ی ہتھیار کو’’ اسلامی ہتھیار ‘‘ کا نام دے کر عصر حاضر کے مسلم ہیروکے خلاف حصار باندھنے کی شرمناک کوششیں شروع کر دیں۔ امریکہ نے فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ذریعے نے ڈاکٹر عبد القدیر کاعرصہ حیات تنگ کرکے انہیں اپنے دولت خانے میں محدود اور نظربندکردیا یوں آج تک وہ اسی کیفیت میں تھے ۔وہ اپنی مرضی کیساتھ تنہاکہیں نہیں جاسکتے اورنہ ہی کسی پروگرام میں آزادانہ طورپرعملی شرکت کرسکتے ہیں۔