in

چار آنے کے کتارے اور چار آنے کے کچے امرود، وہ وقت جب آٹھ آنے کے جیب خرچ میں ہم بادشاہ ہوتے تھے

چار آنے کے کتارے اور چار آنے کے کچے امرود، وہ وقت جب آٹھ آنے کے جیب خرچ میں ہم بادشاہ ہوتے تھے

دن بدن بڑھتی مہنگائی نے ہم کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے جب کہ امیر سے امیر فرد بھی عام گھریلو اخراجات کو لے کر پریشانی کا شکار ہیں۔ اور ہر کوئی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ پرانا وقت اچھا تھا جب سب کچھ سستا ملتا تھا۔ سونا تین روپے تولہ اور آٹا ایک روپے کا چالیس کلو ملتا تھا۔ اس وقت کے بچے جو آج اپنی عمر کی آخری سرحدوں پر چھو رہے ہیں آج بھی اپنے وقت کو یاد کرتے ہیں ایسی ہی کچھ یادوں کو آج ہم آپ کے ساتھ شئير کریں گے-

جب بچوں کا جیب خرچ صرف آٹھ آنے تھا
یہ وقت اسی کی دہائی کا وقت تھا جب کہ ملک کی معیشت تیزی سے پروان چڑھ رہی تھی اس وقت میں ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے تھے اس وقت کے بچوں کو اسکول جاتے ہوئے آج کے بچوں کی طرح پاکٹ منی ملتی تھی- مگر آج کے بچوں کی طرح ان کو پاکٹ منی میں سو روپے کا لال نوٹ نہیں ملتا تھا بلکہ ان کی کل کمائی آٹھ آنے کا ایک سکہ ہوتا تھا یا پھر چار چار آنے کے دو سکے ملتے تھے۔ ہر چار آنے میں دو دس پیسے اور ایک پانچ پیسے ہوتے تھے-

یہ وہ وقت تھا جب مارکیٹ میں دس پیسے کی چیزیں بھی دستیاب تھیں اور پانچ پیسے کی ٹافیاں اور بسکٹ بھی دستیاب تھے تو اس اعتبار سے آٹھ آنے اپنے اندر بڑی طاقت رکھتا تھا-

آٹھ آنے کی طاقت
یہ آٹھ آنے بچت کے شوقین بچوں کے لیے بڑی بچت کا سبب ہوتے تھے ایسے بچوں کے لیے گھروں میں ماں باپ کی ایک اسکیم ہوتی تھی کہ جو بچہ نو روپے جمع کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اس کو اس کے بدلے میں دس روپے کا نوٹ دیا جائے گا تو بچے ان آٹھ آنوں کو جمع کر کے دس پندرہ دن میں دس روپے کا نوٹ بنانے میں کامیاب ہو جاتے تھے جو کہ ایک طاقتور نوٹ سمجھا جاتا تھا- جس سے بڑے کھلونے اور کتابیں خریدی جا سکتی تھیں- جب کہ اس کے مقابلے میں جو بچے کھانے پینے کے شوقین ہوتے ان کی زبان کے چٹخارے پورے کرنے میں بھی یہ آٹھ آنے بہت بڑی رقم ہوتی تھی جس کو ایک بار میں ختم کرنا بڑی عیاشی سمجھی جاتی تھی-

چار آنے کی بوتل اور چار آنے کے چپس
اس وقت میں اسکول کے اندر آٹھ آنے لے کر آنے والا بچہ امیروں کا بچہ ہوتا تھا جو اپنی لنچ بریک میں ان پیسوں سے ایک چپس یا ایک سموسہ اور اس کے ساتھ ایک بوتل بھی پی لیتا تھا-

اسکول کے باہر کھڑے ٹھیلے
ایسے بچوں کے منہ میں پانی لانے اور اس کے آٹھ آنے کو ہتھیانے کے لیے اسکول کے باہر ایسے ٹھیلے ہوتے جہاں پر کتارے (کچی املی )، کچے امرود ، گولا گنڈہ یا چھولوں کی چاٹ باآسانی دس بیس پیسوں میں مل جاتے تھے اور چار آنے میں تو ان کی اتنی مقدار مل جاتی کہ اپنے دوستوں کو بھی ساتھ میں کھلائی جا سکتی تھی-

گول بسکٹ اور ٹافیاں
جو بچے اپنی ماں کی ہدایات کے مطابق ٹھیلوں کی چیزیں اس لیے نہیں کھاتے تھے کہ اس سے گلا اور پیٹ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے وہ اسکول کے قریب لگے کیبن سے چار آنے کے آٹھ گول بسکٹ اور باقی چار آنے کی پانچ ٹافیاں لے کر کام چلاتے تھے-

آٹھ آنے میں کتابیں
یہ ایسا وقت تھا جب کہ بچے کتابیں پڑھنے کے بھی شوقین ہوتے تھے تو ایسے وقت میں ان بچوں کے لیے اسکول کے فریب تخت پر بیٹھا بابا کتابیں بھی اسکیم کے تحت بیچتا تھا جس کا اصول یہ ہوتا تھا کہ چار آنے میں دو چھوٹی کہانی کی کتابیں ملتی تھیں اگر ان کو خراب نہ کر کے پڑھ کر واپس کر دیا جائے تو اگلی بار چار آنے کی تین کتابیں لی جا سکتی تھیں-

اس اسکیم سے ایک جانب تو ایک کتاب کئی بچے پڑھ لیتے تھے اور دوسری جانب بچوں کے اندر کتاب خراب نہ کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا تھا-

آخر میں بس اتنا کہیں گے،
آٹھ آنے کی قسمت پڑیا سے دس پیسے نکلتے تھے
ہم کتنے خوش بخت ہوتے تھے اپنے بچپن میں

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ہمیشہ وقت پر ہونے والی 6ستمبر یوم دفاع کی تقریب پاک فوج نے موخر کر دی ، وجہ کیا بنی ؟جانیں

رات کو یہ21بار پڑھ کر سوجاؤصدیوں کی غریبی صبح رزق و دولت کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گی