یہ نوجوان کیچڑ بھرے پیروں کے ساتھ کیوں وائرل ہو رہا ہے
اس وقت ملک شدید ترین سیلاب کے سبب مشکلات کی زد میں ہے۔ ہر روز سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی ایسی تصاویر اور ویڈيوز سامنے آرہی ہیں جن کو دیکھ کر دل شدید دکھی ہو رہا ہے ۔ ہر طرف سے لوگ اپنی استعداد کے مطابق سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہر طرف سے ایک مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں سیاست دان اور حکمران کہاں ہیں؟
بڑی گاڑيوں اور کلف لگے کپڑوں میں ملبوس سیاست دان
جہاں ایک جانب پانی میں ڈوبتے بچوں، ریت میں دبی ماں کے بچے کو جنم دینے کی تصاویر، پانچ بھائيوں کے ایک چٹان پر 5 گھنٹوں تک زندگی کے لیے لڑنے کی ویڈیو سامنے آرہی ہیں وہیں پر سیاست دان بھی خانہ پری کے لیے کچھ وقت سیلاب زدگان کے درمیان گزارنے کی زحمت کر رہے ہیں۔ اور ان کی تصاویر بھی سوشل میڈيا کی زینت بن رہی ہیں-
مگر متاثرین کے درمیان جانے سے قبل ان کے پروٹوکول افسر ان سے پہلے پہنچ کر کچھ افراد کو منتخب کرتے ہیں ان کا ہاتھ منہ دھلواتے ہیں تاکہ وہ ان سیاست دانوں سے ہاتھ ملانے کے یا ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں۔ ان کے جسم کی بدبو سیاست دانوں کو ناگوار نہ گزرے اور اس کے بعد یہ سیاست دان ان کے ساتھ فوٹو سیشن کرتے ہیں ان کو ہزار پانچ سو دیتے ہیں اور اپنی بڑی سی گاڑی میں یہ جا وہ جا ہو جاتے ہیں-
بھٹو خاندان کا نوجوان ذوالفقار علی بھٹو جونیر
سیلاب نے سندھ کو تین طرف سے نقصان پہنچایا ہے ایک جانب تو بلوچستان سے آنے والے پانی کے ریلوں نے سندھ کے کئی گاؤں زير آب کر دیے دوسری طرف شدید بارشوں نے ان کو مکمل ڈبو دیا ۔ جب کہ ابھی پنجاب سے آنے والا پانی بھی سندھ میں آنے والا ہے جس سے اندیشہ ہے کہ بچے کچھے گاؤں بھی اس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں-
اس کے بعد خبریں یہ بھی ہیں کہ کچھ بڑے سیاست دانوں نے اپنی زمینیں اور فصلیں بچانے کے لیے بند توڑ کر پانی کا رخ رہائشی علاقوں کی طرف موڑ دیا۔ یہ تمام اسباب ایسے ہیں جس کی وجہ سے سندھ کی عوام میں حکمرانوں کے خلاف شدید ترین غم و غصہ پایا جاتا ہے-
بھٹو کے نام سے عقیدت رکھنے والے لوگ اب بھی بھٹو کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں مگر اب ان کی محبت کا محور بلاول بھٹو زرداری نہیں بلکہ ایک عام سے کپڑے پہنے ان کے درمیان موجود کیچڑ میں لتھڑے پیروں والا ذولفقار علی بھٹو جونئير ہے جو ان کے درمیان موجود ہے ان جیسا دکھتا ہے اور بغیر کسی پروٹوکول کے ان کے درمیان بیٹھ جاتا ہے-
یہ نوجوان کوئی سیاست دان نہیں ہے اس وجہ سے اس کا مقصود عوام سے ووٹ لینا نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس لالچ میں لوگوں کے درمیان موجود ہے یہ نوجوان ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے مرتضی بھٹو کا بیٹا ہے-
نانا، چچا، پھوپھی اور باپ کے قتل نے اس نوجوان کو سیاست سے اس حد تک متنفر کر دیا ہے کہ وہ سیاست کو قصاب خانہ کہتا ہے مگر انسانیت کے جذبے سے سرشار یہ نوجوان اس وقت سندھ کی عوام کے درمیان موجود ہے اور ان کی مدد کررہا ہے-
ذوالفقار علی بھٹو جونئیر
یکم اگست 1990 کو دمشق میں پیدا ہونے والا یہ بچہ جس کا نام اس کے والد مرتضیٰ بھٹو نے اپنے والد کے نام پر رکھا۔ یہ بچہ جو اب ایک نوجوان کا روپ دھار چکا ہے معاشرتی روایات کے مطابق بھٹو خاندان کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کا اکلوتا بیٹا ہے۔ یاد رہے بھٹو کے دوسرے بیٹے شاہنواز بھٹو کی بھی صرف ایک بیٹی تھی جس کا نام سسی بھٹو ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو جونیر کو صرف چھ سال کی عمر میں اپنے والد کے قتل کے سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے والد کی پہلی بیوی سے ان کی ایک بہن فاطمہ بھٹو بھی ہیں۔ انہوں نے سان فرانسسکو سے آرٹ کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اسی شعبے سے اب تک منسلک ہیں-
انہوں نے مختلف متنازعہ موضوعات پر ویڈيوز بھی بنائی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی جینے پر یقین رکھتے ہیں اور لوگ کیا کہیں گے اس کی ان کو پرواہ نہیں ہے-
سیاست سے دوری
ذوالفقار علی بھٹو جونیر ماضی کے پر تشدد واقعات کے سبب اور ان کے خاندان میں پے در پے ہونے والے قتل کے سبب بھٹو خاندان کے واحد مرد وارث ہونے کے باوجود سیاسی سرگرمیوں سے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں۔
کراچی میں رہائش رکھنے کے باوجود انہوں نے کبھی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا مگر حالیہ سیلاب میں انہوں نے دادو اور لاڑکانہ کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ ان سیلاب زدگان کی مدد کے لیۓ عملی اقدامات بھی کیے
سوشل میڈيا پر وائرل
ان کے سیلاب زدگان کے لیے کیے گئے ان دوروں کو سوشل میڈيا پر کافی توجہ ملی اور پیپلز پارٹی کے چاہنے والوں نے ان کو بہت کھلے دل سے محبت دی۔ بھٹو خاندان کا واحد وارث ہونے کے سبب پیپلز پارٹی کی صدارت کی کرسی کے سب سے اہل امیدوار وہی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ سیاست میں نہ آنے کے اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں یا اس میں ترمیم کر کے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی تقسیم کا سبب بنتے ہیں-