پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی، مگر شوہر کے دنیا سے جانے پر خوب روئی ۔۔ عامر لیاقت کی تینوں بیگمات میں سے بشریٰ اقبال قابلِ تعریف کیسے؟
عامر لیاقت نے اپنی زندگی میں تین شادیاں کیں۔ سب سے پہلی شادی سب سے زیادہ عرصے چلی اور پھر دوسری شادی مشکل سے ایک سال اس کے بعد تیسری شادی کچھ ماہ ہی چل سکی۔
لیکن ان کے دنیا سے جانے کے بعد اگر کوئی بیگم ان کی میت پر روئی تو وہ پہلی بیگم بشریٰ اقبال ہیں۔ ان کا کردار اپنے شوہر اور بچوں کی زندگی میں ہر لحاظ سے مثبت نظر آیا۔ بیشک دونوں کی طلاق ہوگئی مگر بیوی ہونے کا اصل حق بشریٰ نے نبھایا۔
دانیہ شاہ اور عامر لیاقت کے آپس میں جتنے بھی اختلافات رہے لیکن ان کی موت کے بعد بھی دانیہ اور اس کے گھر والوں کا رویہ اور جائیداد کے لیے دیے گئے بیانات یقیناً لمحہ فکریہ ہیں۔ کیا کوئی اتنا سنگ دل ہو سکتا ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے؟ اگر ان کی طلاق نہیں ہوئی تو کیسے یہ شوہر کے مرنے کے بعد اتنا واویلا کرتی رہیں؟ وہیں دوسری جانب ڈاکٹر عامر لیاقت کی دوسری بیوی طوبیٰ نے سمجھداری سے کام لیا اور آخری دیدار کرنے عامر لیاقت کے گھر پہنچیں۔
لیکن بشریٰ اقبال کا انتہائی ذمہ دارانہ رویہ ہر کسی کے دل میں گھر کرگیا۔ اگر ہم اپنے اطراف میں دیکھیں تو ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ شوہر اگر بیوی کو طلاق دے دے تو وہ بیوی شوہر کے مرنے پر روئے، اس کی برائیوں کو ظاہر نہ کرے اور بچوں کو باپ سے جوڑے رکھے۔
عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم کروانے کے لیے جب عدالت نے آرڈر دیا تو ان کی کوئی بیوی سامنے نہ آئی نہ کسی نے کوئی بیان دیا، صرف بشریٰ اقبال ہی تھیں جنہوں نے کورٹ سے رجوع کیا اور سوشل میڈیا پر بھی ان کے فینز سے کہا کہ عامر کے دنیا سے جانے کے بعد اب ان کے جسم کو کیوں تکلیف پہنچائی جائے۔
بشریٰ اقبال نے اپنے رویے سے یہ ظاہر کیا کہ وہ ایک نیک، پڑھی لکھی اور باشعور خاتون ہیں جنہوں نے کبھی بھی عامر لیاقت کی کسی کے بھی سامنے تذلیل نہیں کی ارو نہ کبھی ان کے متعلق ایسے جملے کہے جو نازیباں ہوں۔ اس سے یہی سبق ملتا ہے
کہ اگر میاں بیوی کی آپس میں لڑائی بھی ہو جائے یا بات طلاق تک جا پہنچے تو کبھی بھی بچوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے برائی پیدا نہ ہونے دیں بلکہ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی برائی کریں گے تو اس سے بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے