تو بہ استغفار !عمر شریف کو دفناتے وقت ایسا کیا ہوا کہ پاکستانیوں کی چیخیں نکل گئیں ، ویڈیو سامنے آگئی
پاکستان وہ خطہ ہے جہاں ہر لحاظ سے زمین اس قدر زرخیز ہے کہ خواہ وہ کوئی بھی شعبہ ہو ، پاکستانی کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ آج کل کہا جاتا ہے بلکہ مانا جاتا ہے کہ اردو سمجھنے بولنے والے ممالک میں بیسٹ کامیڈین بھارت پیدا کرتا ہے مگر کامیڈی کی
سمجھ بوجھ رکھنے والے ناظرین اور ناقدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارتی کامیڈینز کے زیادہ تر مشہور فقرے در اصل پاکستانی مزاح نگاروں کی دین ہیں ۔ طنز و مزاح سے بھرپور کوئی فقرہ پاکستان کے مشہور و معروف کامیڈین معین اختر کی اختراع ہے تو کسی پر کامیڈی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ سر امان اللہ خان کی چھاپ ۔ اور بات کی جائے دورِ حاضر کے کامیڈی شوز کی تو کون نہیں جانتا کہ ان تمام پروگرامز میں چار چاند لگانے کیلئے بھارتی کامیڈینز پاکستانی لیجنڈ اداکار اور مزاح نگار ، عمر شریف مرحوم کا سہارا لیتے ہیں ۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر کامیڈی پر گہری نگاہ رکھنے والا جب بھی کسی بھارتی کامیڈی شو کودیکھے اور سنے تو اکثر فقرے اسے سنے سنے لگتے ہیں اور پھرجب ان پر مزید غور کیا جائے تو ان فقروں کے اصل خالق ہمیں عمر شریف مرحوم ہی دکھائی پڑتے ہیں ۔ہاہ ۔۔۔ مگر افسوس ۔۔۔ کامیڈی کے شعبے میں پاکستان کا نام پوری دنیا میں جگمگانے والا عمر شریف اب
ہم میں نہیں رہا اور یہ خبر سننے کو ملی کچھ روز قبل جب لیجنڈ کامیڈین عمر شریف طویل علالت کے بعد جرمنی کے اسپتال میں انتقال کر گئے ۔ عمر شریف 4 روز تک جرمنی کے اسپتال میں داخل رہے، انہیں کراچی سے واشنگٹن علاج کیلئے پہنچایا جارہا تھا لیکن ناساز طبیعت کے باعث انہیں جرمنی کے اسپتال میں ہی داخل کردیا گیا تھا۔لیجنڈری اداکار و کامیڈین عمر شریف کافی عرصے سے عارضہ قلب، گردے اور دیگر بیماریوں میں مبتلا تھے۔انہوںنے اپنے کیریئر کا آغاز 1974میں 14سال کی عمر میں اسٹیج اداکاری سے کیا تھا اور 1980 میں پہلی مرتبہ آڈیو کیسٹ پر اپنا ڈرامہ ریلیز کیا تھا۔عمر شریف ٹی وی و اسٹیج اداکار اور فلم ڈائریکٹر کے طور پر جانے جاتے تھے، انہوں نے اسٹیج و تھیٹر میں سرحد پار بھی بہت مقبولیت حاصل
کی تھی۔کامیڈین اداکار نے تقریباً 5 دہائیوں تک شوبز میں کام کیا اور درجنوں ڈراموں، اسٹیج تھیٹرز اور لائیو پروگرامز میں پرفارم کیا، کہا جاتا ہے کہ سٹیج کی دنیا کو اگر عروج نصیب ہوا تو عمر شریف کے دور میں ، جب بھی کسی ہال میں عمر شریف کا ڈرامہ لگتا ، لوگ ٹکٹیں لینے یوں امڈ آتے جیسے عوام کا سمندر ۔ عمر شریف نے کئی ڈرامے تحریر بھی کیے جن میں ان کے چبھتے ہوئے اصلاحی اور انقلابی جملوںنے خوب شہرت حاصل کی ۔ مثال کے طور پر ( عمر شریف حاضر ہو ) ان کا بہترین فیملی اسٹیج ڈرامہ جس میں ان کے لکھے اور بولے گئے جملے کئی سال گزرنے کے باوجود آج بھی زبان زد عام ہیں ۔ منظر کچھ یوں ہے کہ ایک طوائف عدالت کے کٹہرے میں کھڑی ہے ، عمر شریف ایک وکیل کے کریکٹرمیں سوالات کیلئے سامنے
موجود ہیں ۔ طوائف الزام عائد کرتی ہے کہ آپ کا اور ہمارا تو ایک ہی دھندہ ہے ، وکیل کے روپ میں موجود عمر شریف مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کیا مظلب ہے کہ آپ کا میراایک دھندہ ہے ، میں کیا پیروں میں گھنگھرو باندھ کر آتا ہوں ؟ اس پر طوائف جواب دیتی ہے : ہم بھی ہر کالا کام کرنے والے کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ، ان کیلئے محافل سجاتے ہیں ، یہی ہو رہا ہے نا آپ کے تھانے کچہریوں میں بھی ؟ یہ ایک ایسا کاٹ دار جملہ تھا جس پر جہاں عوام کی جانب سے خوب پسندیدگی کا اظہار کیا گیا وہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ہمت نہ رکھنے والوں
کی جانب سے شدید رد عمل بھی دیکھنے میں آیا مگر کاش کہ ان فقروں سے سبق بھی حاصل کیا جاتا ۔ اسی ڈرامے میں عمر شریف طوائف کے اس کریکٹر کے ذریعے سو کالڈ عزت داروں کی اصلیت کھولتے ہوئے طوائف کے منہ سے ایسے جملے بلواتے ہیں کہ سننے والوں کی آنکھیں ہنستے ہنستے اچانک اشکبار ہوجاتی ہیں ۔ طوائف کہتی ہے : میں تو اس لٹے پٹے قافلے میں آئی ۔۔۔۔۔۔(قیام پاکستان ، ہجرت کے مناظر )تب بھی طوائف تھی ، اور آج بھی طوائف ہوں ، مگر وہ جو اس قافلے میں بھوکے ننگے آئے تھے وہ اچانک کیسے اربوںکھربوں پتی بن گئے ؟ناظرین یہ تھے عمر شریف جنہوں نے پاکستانیوں کو نہ صرف ہنسایا بلکہ جہاں ضرورت پڑی وہاں اپنے قلم اور فن مزاح سے ایسے چبھتے ہوئے طنز کے نشتر چلائے کہ ان جملوں کے مخاطب حضرات آج بھی اپنے سینوں میں اس کی چبھن محسوس کرتے ہیں ۔