کیاپانامہ لیکس میں نواز شریف کا نام شامل تھا ؟
لاہور (ویب ڈیسک) جولائی 2017ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بدعنوانی الزام پراپنے منصب کے لئے نا اہل قرار دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پاناما پیپرز کی بنیاد پر کیا گیا یہ خبر 28؍ جولائی کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی۔ اخبار کے مطابق نواز شریف کا نام پاناما پیپرز میں کبھی نہیں آیا
جبکہ ان کے بچے مریم، حسین اور حسن نواز لندن میں پرتعیش جائیداد آف شور کمپنیوں کے ذریعہ خریدنے کے لئے پرعزم تھے۔ ان کے بچوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے جائز آمدنی سے فلیٹس خریدے جبکہ دیگر کا دعویٰ اس کے متضاد ہے۔ انٹرنیشنل کنسورشیم فار انوسٹی گیٹو جرنلسٹس کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق جس نے 2016ء کے اوائل میں سب سے پہلے پاناما پیپرز لیکس کو منظر عام پر لایا۔ مریم جو اپنے و الد کی سیاسی جانشین تصور کی جاتی ہیں وہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں قائم دو آف شور کمپنیوں کی مالک تھیں، نیلسن انٹرپرائز اور نیسکول کو 1990ء کی دہائی کے شروع میں قائم کیا گیا تھا۔ جب نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا پہلا دور مکمل ہوا تھا۔ دستاویز کی تفصیلات کے مطابق نواز شریف مذکورہ کاروباری سرگرمیوں میں براہ راست شامل نہیں تھے۔ اس بات کا اعادہ انہوں نے سپریم کورٹ میں بھی کیا۔ پاناما لیکس جب 3؍ اپریل 2016ء کو سامنے آئیں اس وقت کے اپوزیشن لیڈرعمران خان نے نواز شریف کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔ گو کہ مریم نے اس وقت کہا تھا کہ ان کا آف شور کمپنیوں سے کوئی تعلق نہیں تاہم پریشانی صاف ظاہر تھی۔ 5؍ اپریل کو نواز شریف نے قوم سے نشریاتی خطاب کیا۔ اپنے خاندان کے خلاف تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن کےقیام پرآمدنی ظاہر کی۔ 14؍ اپریل کو نواز شریف طبی معائنے کے لئے لندن چلے گئے 19؍ اپریل کو پاکستان واپس آگئے۔ 22؍ ا پریل کو ایک اور نشریاتی خطاب میں نواز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا۔ 10؍ مئی کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پاناما پیپرز کا معاملہ حل کرنے پر زور دیا۔ 16؍ مئی کوقومی اسمبلی سے خطاب کے دوران نواز شریف نے بتایا کہ لندن کے فلیٹس پاکستان میں املاک کی فروخت سے آمدن کے ذریعہ خریدے گئے ہیں 22؍ مئی کو قلب کے جراحی کے لئے نواز شریف لندن واپس چلے گئے 24؍ جون کو پی ٹی آئی نے نواز شریف کی نااہلیت کے لئے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائرکیا۔ 9؍ جولائی کو نواز شریف 48؍ روز بعد لندن سے پاکستان واپس آگئے۔ 29؍ اگست کو پی ٹی آئی نے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ 28؍ جولائی کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔