عمر شریف جب کبھی کراچی سے لاہور آتے ، داتا صاحب ؒ کے مزار کے بعد ایک گھر پر جاتے اور اس کی دیواروں کو چومتے رہتے ، یہ کس کا گھر تھا ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار طاہر سرور میر اور ریاض سہیل بی بی سی کے لیے اپنی ایک مشترکہ تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان میں مزاحیہ تھیٹر کی دنیا پر ایک عرصے تک راج کرنے والے فنکار عمر شریف جرمنی میں وفات پا گئے ہیں۔ ان کی عمر 66 برس تھی اور وہ عارضۂ قلب سمیت کئی
بیماریوں میں مبتلا تھے۔عمر شریف کو علاج کی غرض سے 28 ستمبر کو پاکستان سے براستہ جرمنی امریکہ منتقل کیا جا رہا تھا تاہم ان کے خاندانی ذرائع کے مطابق جرمنی میں عارضی قیام کے دوران ہی ان کی طبعیت مزید بگڑی اور وہ جانبر نہ ہو سکے۔عمر شریف کی اہلیہ کی بہن عنبرین نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کے سفر کے دوران ہی راستے میں ان کی طبیعت خراب ہوئی جس وجہ سے انھیں جرمنی میں روک لیا گیا۔ ’وہ وہاں گذشتہ چار دن سے زیر علاج تھے۔ انھیں نمونیا اور بخار تھا۔‘عنبرین کے مطابق انھیں ان کی بہن زرین نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ جیسے طبیعت بہتر ہوگی تو وہ امریکہ کے لیے روانہ ہوں گے لیکن بہتری نہیں آئی اور وہ سنیچر کی صبح انتقال کر گئے۔عمر شریف کا اصل نام محمد عمر تھا اور وہ سرکاری ٹی وی کے مطابق کراچی میں 1955 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کی عمر چار سال تھی کہ والد کا انتقال ہو گیا اور ان کے خاندان کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔وہ کراچی میں جس علاقے میں رہائش پذیر رہے وہاں قریب قوالوں کے بھی گھر تھے۔ بچپن اور لڑکپن میں ان کی دوستی ان قوالوں کے بچوں سے رہی اور جب ہوش سنبھالا تو اپنے محلے کے مختلف کرداروں سمیت مشہور فلمی اداکاروں کی بول چال اور انداز کی نقالی کرنے لگے۔یہی وجہ تھی کہ عمر شریف کی بذلہ سنجی، جملے بازی اور لطیفہ گوئی پورے علاقے میں مشہور ہو گئی تھی۔
سکول کے بعد عمر شریف جب گلی محلے میں نکلتے تو ان کے ارد گرد لڑکوں کا ہجوم ہوتا اور وہ انھیں ہنسانے میں مصروف ہو جاتے۔عمر شریف صرف 14 سال کی عمر میں تھیٹر سے بطور اداکار وابستہ ہوئے۔ ان کے سٹیج اداکار بننے کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے۔کراچی کے آدم جی ہال میں جاری سٹیج ڈرامے کے ایک گجراتی اداکار کو اپنے عزیزکی وفات پر ڈرامہ چھوڑ کر جانا پڑا تو شو سے دو گھنٹے قبل عمرشریف کو بلایا گیا اور میک اپ روم میں کاغذات کا پلندہ ہاتھ میں یہ کہہ کر تھما دیا گیا کہ تمہیں جوتشی بننا ہے۔عمر شریف کو اس ڈرامے کے لیے تین بار انٹری دینا تھی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے متعدد فنکار بتاتے ہیں کہ پہلی ہی انٹری پر ہی عمرشریف نے اپنی پرفارمنس سے حاضرین کے دل جیت لیے اور جب وہ سٹیج سے ہٹے تو دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ 14 سال کے عمر شریف کو اس ڈرامے میں بہترین کارکردگی دکھانے پر شو کے آخری دن پانچ ہزار روپے، 70 سی سی موٹرسائیکل اور پورے سال کا پٹرول انعام میں دیا گیا تھا۔اور پھر انھوں نے اس میدان میں اداکاری کے علاوہ بطور مصنف اور ہدایتکار بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ عمر شریف نے 70 سے زائد ڈراموں کے سکرپٹ لکھے جن کے مصنف، ہدایتکار اور اداکار وہ خود تھے اور ان ڈراموں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔’بہروپیا‘ وہ کھیل تھا جس میں عمر شریف کا ٹیلنٹ کھل کر سامنے آیا اور پھر ’بڈھا گھر پہ ہے‘ اور ’بکرا قسطوں پہ‘
نے انھیں پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈیا میں بھی وہ مقبولیت عطا کی کہ عمر شریف برصغیر کے پسندیدہ مزاحیہ فنکار بن گئے۔ڈرامہ بکرا قسطوں پہ کی مقبولیت اس قدر تھی کہ عمر شریف نے اس کے پانچ پارٹ بنائے۔ عمر شریف نے پہلی بار سٹیج ڈرامے ریکارڈ کرنے کا رواج بھی ڈالا۔ ’یس سر عید، نو سر عید‘ عمر شریف کا پہلا ڈرامہ تھا جس کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی تھی۔ سٹیج ڈراموں کی ویڈیو ریکارڈنگ نے انھیں برصغیر سمیت دنیا بھر میں اردو اور پنجابی بولنے والوں کا پسندیدہ کامیڈین بنا دیا تھا۔عمر شریف لڑکپن سے ہی برصغیر کے بےمثل مزاحیہ اداکار منور ظریف کے دیوانے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ منورظریف میرے روحانی استاد ہیں۔ کریئر کی ابتدا میں عمرشریف نے اپنا نام عمر ظریف بھی رکھا لیکن 70 کی دہائی میں مصری اداکار عمر شریف کی فلم ’لارنس آف عریبیا‘ کی نمائش ہوئی تو جواں سال محمد عمر، عمر شریف بن گئے۔چند ماہ قبل ایک ٹی وی انٹرویو میں منورظریف سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان جیسا آدمی اور فنکار میں نے نہیں دیکھا، نہ مجھے کوئی ان جتنا اچھا لگا۔ہمارے ملک کے آرٹسٹ بڑے اعلیٰ ہیں لیکن سچ کہتا ہوں منورظریف دنیا میں دوسرا پیدا نہیں ہوا۔عمر شریف بتایا کرتے تھے کہ ان کی بدنصیبی رہی کہ وہ زندگی میں منور ظریف سے ملاقات نہ کر سکے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ کراچی کے ایک ہوٹل میں منورظریف سے ملاقات کرنے اپنے دوست صحافی پرویز مظہر کے ساتھ گئے تھے لیکن منور صاحب کی مصروفیات کے باعث ملاقات نہ ہو سکی۔
عمر شریف کی منور ظریف سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار کراچی سے لاہور آئے تو داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری دینے کے بعد سیدھے ٹیگور پارک میں منور ظریف کے گھر گئے اور گھر کی دیواریں چومتے رہے۔90 کی دہائی میں عمر شریف کراچی سے لاہور منتقل بھی ہوئے جہاں انھوں نے اچھرہ میں شمع سنیما کو لاہور تھیٹر میں بدل دیا۔ مذکورہ تھیٹر میں عمر شریف نے کئی یادگار ڈارمے کیے۔سٹیج ڈراموں کے ساتھ ساتھ عمر شریف نے مسٹر420 ، مسٹر چارلی اور چاند بابو جیسی فلمیں بھی پروڈیوس کیں۔ مسٹر 420 کے لیے انھیں دو نیشنل اور چار نگار ایوارڈز بھی ملے جو پاکستان میں ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے جن فلموں میں کام کیا ان میں حساب، کندن، بہروپیا، پیدا گیر، خاندان اور لاٹ صاحب شامل ہیں۔عمر شریف نے پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز پر بھی شوز کیے اور ایسے ہی ایک شو ’عمر شریف ورسز عمر شریف‘ میں وہ 400 سے زیادہ بہروپوں میں نظر آئے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔اس شو کے لیے عمر شریف کے ساتھ کام کرنے والے میک اپ آرٹسٹ عمران نواب کا کہنا ہے کہ ’میں نے اور میرے والد نواب علی نے عمر شریف صاحب کو 400 سے زائد گیٹ اپ دیے اور انھوں نے اتنے ہی کردار اور لب و لہجے اختیار کیے۔سینیئر کامیڈین خالد عباس ڈار ہوں یا سہیل احمد یا پھر ان کے ساتھ کام کرنے والے حنیف راجہ، شہزاد رضا سب ہی ان کی ٹائمنگ اور فی البدیہہ جملے بازی کے مداح تھے۔
عمر شریف کی یہی ٹائمنگ اور جملے بازی تھی جس نے انھیں برصغیر کے مزاحیہ فنکاروں میں ممتاز کیے رکھا۔ پاکستان اور انڈیا کے نامور فنکار مانتے ہیں کہ ہیں کہ ’آدھا لافٹر عمر شریف کا لب و لہجہ تھا‘۔ان فنکاروں کا کہنا ہے کہ عمر شریف کا مشاہدہ زبردست تھا اور سٹیج پر کھڑے ہوتے تو بات سے بات یوں ادا ہوتی جیسے آسمان سے بارش ہو رہی ہو۔عمر شریف پاکستان کے شاید واحد مزاحیہ فنکار ہیں جن کے پرستار پوری دنیا میں موجود ہیں۔ امیتابھ بچن ہو، شاہ رخ خان یا بولی وڈ کے بڑے بڑے نام سب ان کے مداح تھے۔ ایک مرتبہ عمر شریف ممبئی گئے تو اداکارہ فرح اور تبو روزانہ گھر سے کھانے پکا کر اس ہوٹل لاتی رہیں جہاں عمر شریف قیام پذیر تھے۔فرح نے بتایا تھا کہ جب وہ ڈپریشن کا شکار ہوئیں تو ان کے سسر نے عمر شریف کے مزاحیہ ڈرامے دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں دیکھو۔ فرح کے مطابق عمر شریف کے ڈرامے دیکھ کر وہ اتنا ہنستی تھیں کہ ان کا ڈپریشن دور ہو گیا۔دبئی میں ہونے والے زی سنی ایوارڈز میں راقم الحروف کو عمر شریف کے ساتھ شرکت کرنے کا موقع ملا۔ یہ وہی تقریب تھی جس میں بالی وڈ کے بڑے بڑے ناموں نے عمر شریف کا جادو دیکھا تھا۔تقریب میں عمر شریف سٹیج پر آئے تو انھوں نے امیتابھ بچن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج پہلی بار میں نے امیتابھ بچن صاحب کو زندہ دیکھا ہے یعنی لائیو (براہ راست) دیکھا ہے۔‘ عمر شریف نے گفتگو کا آغاز کیا تو امیتابھ بچن سنجیدگی سے سننے لگے
لیکن چند ہی لمحوں بعد ہنستے ہنستے اور پھر قہقہے لگاتے امیتابھ بچن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔اسی تقریب میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ انڈین کامیڈینز عمر شریف سے متاثر ہی نہیں بلکہ انھیں اپنا گرو مانتے ہیں۔ بالی وڈ کے نامور مزاحیہ اداکار جاوید جعفری کا کہنا ہے کہ وہ لڑکپن سے عمر شریف کے دیوانے تھے اور انھیں ان کے ڈراموں کا ہر جملہ اور ہر حرکت ازبر ہے۔ جانی لیور کا کہنا ہے کہ پاکستان اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ وہاں معین اختر اور عمر شریف جیسے کامیڈی سٹارز پیدا ہوئے۔عمر شریف نے تین شادیاں کی تھیں۔ سما ٹی وی پر ندا یاسر کے شو میں انھوں نے بتایا تھا کہ ان کی پہلی بیوی ان کی پڑوسن تھیں، ان کا گھر میں آنا جانا تھا اور وہ ان کی والدہ کا خیال رکھتی تھیں اس لیے انھوں نے ان سے شادی کی۔ عمر شریف کی دوسری شادی ڈرامہ آرٹسٹ شکیلہ قریشی سے ہوئی اور زیادہ نہیں چل سکی جس کے بعد تیسری شادی انھوں نے سٹیج اداکارہ زرین غزل سے کی۔ان کی تیسری بیوی زرین ہی ان کے ساتھ بیرون ملک علاج کے لیے گئی تھیں جبکہ دونوں میں پراپرٹی کے معاملے پر ایک کیس سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا جہاں عمر شریف نے درخواست کی تھی کہ ان کی یادداشت کمزور ہے اور ان کی اہلیہ نے ان سے گفٹ ڈیڈ پر دستخط کراو لیے تھے اور وہ 11 کروڑ روپے مالیت کا فلیٹ فروخت کرنا چاہتی تھیں تاہم اس فیصلے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔عمر شریف کی زندگی میں ایک بڑا صدمہ ان کی نوجوان بیٹی حرا شریف کی موت کا بھی تھا، جن کی غیر قانونی پیوندکاری کے دوران انتقال کر گئی تھیں ، ان کے بیٹے نے ایف آئی اے کو ایک درخواست دی تھی کہ لاہور کے ایک ڈاکٹر نے ان سے 34 لاکھ رپے لیے تھے اس کے بعد کشمیر منتقل کیا گیا جہاں آپریٹ کے بعد حرا کی حالت بگڑ گئی اور اس کا انتقال ہو گیا، وہ بیٹی کا ذکر کرتے رنجیدہ ہو جاتے تھے۔چند ماہ قبل سوشل میڈیا پر ایک تصویر نے عمر شریف کے مداحوں کو افسردہ کر دیا تھا۔ اس تصویر میں وہ ویل چیئر پر بیٹھے تھے جبکہ ان کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔یہ تصویر سامنے آنے کے بعد حکومت سندھ اور وفاقی حکومت نے ان کا علاج کروانے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں حکومت سندھ نے چار کروڑ روپے بھی جاری کیے جس کے بعد انھیں کراچی سے خصوصی ایئر ایمبولینس کے ذریعے امریکہ منتقل کیا جا رہا تھا جہاں ان کے دوست ان کا علاج کروانے کے کی یقین دہانی کروا چکے تھے۔(بشکریہ : بی بی سی )