رونے دھونے کے بجائے اپنے پیارے کے لیے قرآن خوانی کریں ۔۔ بے اولادی کے باوجود دردانہ بٹ اللہ کا شکر کیوں ادا کرتی تھیں؟ دلچسپ معلومات
مشہور اداکاروں کے کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں، جو کہ سب کو خوب بھا جاتے ہیں، تاہم چند مشہور اداکار ایسے بھی ہیں، جن کے الفاظ ان کی رحلت کے بعد وائرل ہو گئے۔
ایسا ہی ایک بیان مشہور اداکارہ دردانہ بٹ کا تھا، جس نے سب کی توجہ حاصل کی۔
اپنے منفرد انداز اداکاری کی بدولت لوگوں کے دلوں گھر کرنے والے اداکارہ دردانہ بٹ کی زندگی ایک ایسا سبق ہے جس سے نہ صرف صبر کرنے سبق ملتا ہے بلکہ دنیا میں جینے کا سلیقہ بھی ملتا ہے۔ اپنے دور کی مشہور اداکارہ دردانہ بٹ کے بارے میں کچھ ایسی معلومات آپ تک پنچائیں گے جو ہو سکتا ہے آپ نے پہلی بار سنی ہو۔
تنہائیاں اور آنگن ٹیڑھا میں جاندار اداکاری کے جوہر دکھانے والی اداکارہ دردانہ بٹ نہ صرف اداکاری میں بلکہ اصل زندگی میں بھی اسی نرم دل، انسانیت کا خیال رکھنے والی اور پیار کرنے والی انسان تھیں۔
دردانہ بٹ ایک ایسی اداکارہ تھیں جنہیں صوفی اور صوفیانہ مزاج سے بے حد لگاؤ تھا، یہی وجہ تھی کہ اپنے گفتگو کی شروعات میں بسم اللہ پڑھتی تھیں اور آقائے دو جہاں کو یاد کیا کرتی تھیں۔
میٹرو ون نیوز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں دردانہ بٹ کا کہنا تھا کہ جوانی کے دور میں بہت ٹوم بائی قسم کی لڑکی تھی، اور اسی لیے میں پولیس میں جانا چاہتی تھی لیکن اللہ کو کچھ اور بھی منظور تھا۔
دردانہ بٹ کی ایک بہن اور ایک چھوٹا بھائی ہے جبکہ دردانہ دوسرے نمبر پر تھیں اسی دوسرے نمبر کے حوالے سے دردانہ کہتی تھیں۔ ماشاللہ سے میری بڑی بہن بہت خوبصورت ہیں جبکہ چھوٹا بھائی امی کا دلارا ہے جبکہ والد صاحب مجھ سے زیادہ پیار کرتے تھے، توجہ حاصل کرنے کے چکر میں میں ٹام بوائے بن گئی تھی۔
میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خود کو بھی نقصان پہنچاتی تھی، ہم جو کہہ دیتے ہیں کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو، یہ رسی آرام سے نہیں آتی۔ اس رسی کے لیے بہت محنت، لگن ضروری ہے۔ ہم اپنے بچوں کو قران ختم کرنے پر خوش ہوتے ہیں، جی نہیں قرآن ختم نہیں ہوتا بلکہ اپنے بچوں کو ترجمہ کے ساتھ اسے سکھائیں۔ قرآن شریف کے ایک لفظ پر اگر روز سوچوں کہ یہ کیا ہے تو اس کے ایک لفظ کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔
زندگی سے متعلق دردانہ کہتی تھیں کہ زندگی ایک تکلیف دہ سفر ہے، اور اس تکلیف کو برداشت کرنا سیکھیں۔ میری تکلیف کا مرحم میرا مرشد ہے، صحیح مرشد ملنا خوش قسمتی ہے۔ اللہ کا کرم اسی وقت ہوتا ہے جب بندہ خود اللہ کی طرف آںے کے لیے جدوجہد کرے۔ میں بہت طاقتور ہوں مگر میں حساس بھی ہوں۔ لیکن میرے آپریشن نے مجھے رُلا دیا تھا، میں بہت روئی تھی۔ ہم جب بھی گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں وہ ایمان کی کمزوری سے ہوتی ہے۔ دردانہ بٹ موت سے متعل کہتی تھیں کہ ہم موت کے آںے کو یاد نہیں کرتے، سب سے بڑا ڈر یہی ہے کہ موت نے آنا ہے۔ مگر ہم مانتے نہیں ہیں۔
مجھے بہت ڈر لگتا تھا موت سے، مگر اب نہیں لگتا۔ لیکن صرف ایک دعا ہے اللہ سے کہ مجھے آزمائشوں والی موت نہ دینا۔ بجائے اس کے لوگوں کی وفات پر روئے دھوئیں، ہمیں فاتحہ خوانی کرنی چاہیے، قرآن خوانی کرائیں۔ جو بھی آرٹسٹ جاتا ہے اس دنیا سے، اس کے لیے فاتحہ خوانی کرائیں، سب آرٹسٹس کو بلائیں۔