in

جذبات میں کیے گئے ایک فیصلے نے زندگی کیسے برباد کی ایک سبق آموز قصہ

جذبات میں کیے گئے ایک فیصلے نے زندگی کیسے برباد کی ایک سبق آموز قصہ

آج کل کی نوجوان نسل کو ان کے حقوق کا ادراک گزشتہ نسلوں کے مقابلے میں انٹرنیٹ کے سبب کچھ زيادہ ہی ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ پسند کی شادی ان کا حق ہے اور وہ اپنی زندگی کا یہ فیصلہ خود بھی کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ان کو والدین اور گھر کے بڑوں کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہوتی۔

آج کل ہر کچھ دنوں کے بعد ایسی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں جس کے مطابق لڑکی نے اپنی پسند کی شادی کرنے کے لیے کورٹ کا سہارا لیا اور لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کر لی-

ایسی شادی کرنے والی لڑکیاں اپنی جیسی کچھ لڑکیوں کے لیے ایک مثال ثابت ہوتی ہیں جو کہ پسند کی شادی کی خواہشمند ہوتی ہیں لیکن شادی کے کچھ سالوں بعد ان میں سے بہت ساری لڑکیاں عبرت بھی بن جاتی ہیں ایسی ہی ایک لڑکی کی داستان آج ہم آپ سے شئير کریں گے-

ہالہ جس کی ویڈيو ان دنوں سوشل میڈيا پر وائرل ہو رہی ہے اس کا تعلق پنجاب سے ہے۔ جب کہ اس کے شوہر کا تعلق جہلم سے ہے۔ انتہائی درجے کی خوبصورت اور کم عمر ہالہ ایک ایسی لڑکی ہے جس نے اپنی شادی کرنے کے لیے والدین کو چھوڑ کر کورٹ میرج کا سہارا لیا اور اچھی زندگی کی خواہش میں صرف اپنی ہی نہیں بلکہ اپنی اگلی نسل کی زندگی بھی برباد کر دی-

ہالہ کا کہنا تھا کہ اس کی اس لڑکے سے پہلی بات فیس بک کے ذریعے ہوئی اس کی تصویر دیکھ کر اس لڑکے نے اس سے رابطہ کیا جس کی وجہ سے ان دونوں کی بات چیت شروع ہو گئی۔ جس کے بعد انہوں نے آپس میں واٹس ایپ نمبروں کا بھی تبادلہ کیا اور ان کی محبت پروان چڑھنے لگی-

جس کے بعد دونوں نے اپنے گھر والوں کو اپنی پسندیدگی سے آگاہ کیا ہالہ کے گھر والوں نے اس کو بتایا کہ لڑکے کا تعلق بہت امیر گھرانے سے ہے اس وجہ سے وہ اس کی شادی وہاں نہیں کر سکتے ہیں- جب کہ لڑکے کے گھر والوں نے ہالہ کی غربت کے سبب اس کو اپنانے سے انکار کر دیا اس وقت لڑکے نے ہالہ کو کورٹ میرج کی پیش کش کی- جذبات میں اندھی ہالہ نے اس کی اس پیش کش کو قبول کر لیا اور گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کر لی-

ہالہ کے مطابق ڈیڑھ سال تک اس کی شادی بہت خوشگوار رہی اسی دوران اللہ نے اس کو ایک بیٹا بھی دے دیا مگر اس کے بعد اس کے شوہر کا رویہ تبدیل ہونے لگا- یہاں تک کہ اکثر فون سننے کے لیے وہ باہر چلا جاتا تھا اور جب ہالہ اس سے اس حوالے سے دریافت کرتی تو اس کو ڈانٹ دیتا تھا-

تنہا گھر میں چھوڑ گیا

ہالہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک دن اس کے شوہر نے اس سے کہا کہ وہ کہیں جا رہا ہے جلد آجائے گا مگر اس کے بعد ہالہ کے شوہر کا نمبر بند ہو گیا اور اس کا اس سے رابطہ منقطع ہو گیا-

ایک دن اس کے شوہر نے کسی نئے نمبر سے اس کو کال کر کے کہہ دیا کہ اب وہ واپس نہیں آئے گا اور اس کا ہالہ سے اور اس کے بچے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس خبر نے ہالہ کی زندگی کو اندھیر کر دیا وہ ایک کرائے کے مکان میں رہائش پزیر تھی جب اس کے پاس پیسے ختم ہونے لگے تو اس کے مالک مکان نے اس کو گھر سے نکال دیا اور وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئی-

خالہ کی پناہ

اسی دوران کسی طرح سے خالہ کا رابطہ اس کی خالہ کی بیٹی سے ہوا جس کو اس نے اپنی زندگی کے ساتھ ہونے والے سانحہ سے آگاہ کیا- جس کے بعد خالہ کی بیٹی نے اپنی والدہ کو ہالہ کی مدد کے لئے قائل کیا اور انہوں نے ہالہ کو اپنے گھر میں پناہ دے دی-

والدین کا رویہ

اس موقع پر ہالہ کے والدین کا رویہ ہالہ کے ساتھ وہی تھا جو کسی بھی ایسے والدین کا ہوتا ہے انہوں نے ہالہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا- ان کا کہنا تھا کہ ہالہ ان کے لیے مرچکی ہے اور اب ان کے گھر میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی ہے –

ہالہ کی گود میں بمشکل ایک سال کا اس کا بیٹا ہے جو کہ شیر خوار ہے مگر ہالہ کا کہنا ہے کہ وہ اس بچے کے دودھ کا خرچہ پورا نہیں کر سکتی جبکہ اس کے سر پر چھت بھی نہیں ہے ۔ آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ ہالہ اس وقت اپنے ایک غلط فیصلے کے سبب رو رو کر مدد کی بھیک مانگنے پر مجبور ہے-

ہالہ کی یہ کہانی ان تمام لڑکیوں کے لیے ایک سبق ہے جو جذبات میں آکر ماں باپ کی عزت کو بیچ چوراہے پر ایک لڑکے کے لیے نیلام تو کر دیتی ہیں لیکن زندگی کے کسی بھی مقام پر ہارنے کے بعد

ان کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے- کیونکہ شادی کر کے محبت کو پا لینا ہی زندگی نہیں ہوتا بلکہ ایک زندگی کا آغاز ہوتا ہے اور غلط طریقے سے کیے گے فیصلے اذیت کے سوا کچھ نہیں دیتے ہیں-

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

وہ کانپتے ہوئے ہونٹوں سے بو لی قبول ہے اس کو لگ رہا تھا

دریا میں مچھلیوں کو کھانا کھلا کر نیکی کی لیکن ۔۔ ریشم کو نیک کام کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟