اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار وانکوانی کی خصوصی تحریر
لاہور (ویب ڈیسک) قومی اسمبلی کے اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں2002میں جب پارلیمنٹ کا حصہ بنا تو میں نے جبری مذہب تبدیلی کے تدارک کیلئے کوششوں کا آغاز کیا، سب سے پہلے تو میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام امن کا دین ہے
اور اللہ کے آخری پیغمبر دنیا کی ہر مخلوق کیلئے رحمت العالمین بناکر بھیجے گئے ، دنیا بھر میں اسلام پیار محبت اور تبلیغ کے ذریعے پھیلا ہے، اگر کوئی غیرمسلم اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو ہمیں اس کا خیرمقدم کرنا چاہئے ۔ پاکستان میں درحقیقت یہ معاملہ اتنا ہے نہیں جتنا یہ سنگین نوعیت اختیار کرگیاہے ، اسلئے ضروری ہے کہ اس حساس معاملے پر مل بیٹھ کر قانون سازی کی جائے جس سے نہ تو اقلیتوں کے حقوق پامال ہوںاورنہ ہی ملک و قوم کی بدنامی ہو۔ میری درخواست پروزیراعظم عمران خان نے اس دیرینہ مسئلے کو انسانی حقوق کا ایشو قرار دیتے ہوئے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا جس میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری سمیت سینٹ اور قومی اسمبلی سے تمام منتخب سیاسی جماعتوںکی نمائندگی شامل تھی۔ جبری مذہب تبدیلی کا نشانہ اٹھارہ سال کی کم عمر غیرمسلم بچیوں کو بنایا جارہا ہے جس میں بڑی تعداد کا تعلق ہندو مذہب سے ہے، بیشتر واقعات میں مظلوم بچیوں کو شناختی کارڈ بھی جاری نہیں ہوئے ہیں۔میری نظر میں اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ نمبر ایک، کمسن غیرمسلم بچیوں کو جبراًشادی کیلئے انہیں اٹھا لیا جاتا ہے اور پھران مظلوم بچیوں کے پاس مذہب تبدیلی کے علاوہ دوسرا آپشن نہیں ہوتا، پاکستان میں دوسری بڑی وجہ غیرمسلم بچیوں کی عشق محبت کی بناء پر اپنی مرضی سےمذہب تبدیل کرنا ہے چونکہ مذہب تبدیلی کا کوئی باقاعدہ میکانزم موجود نہیں ہے تو وہ بھی ان افراد سے رجوع کرتی ر ہیں جو پہلے ہی جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے متنازع ہیں،