کیاآپ جانتے ہیں ججزاور وکیل اپنے لئے سیاہ رنگ کے لباس کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟ تقسیم ہند سے قبل کا ایک واقعہ آپ کو سب سمجھا دےگا
کیاآپ جانتے ہیں ججزاور وکیل اپنے لئے سیاہ رنگ کے لباس کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟ تقسیم ہند سے قبل کا ایک واقعہ آپ کو سب سمجھا دےگا
برصغیر‘ جو کبھی دنیا کا سب سے خوشحال اور امیر علاقہ تھا‘ دو سو سال کی استعماریت اور لوٹ کھسوٹ کے بعد‘ بظاہر آزادی حاصل کر لینے کے بعد بھی‘ نہ صرف پسماندگی کا شکار ہے بلکہ ابھی تک کسی نہ کسی طرح مغرب ہی کے زیرِ تسلط
چلا آ رہا ہے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے نامور کالم نگار ڈاکٹر منور صابراپنےایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔!!! کہ برطانیہ کی جگہ اب یہاں امریکا کا حکم نما اشارہ چلتا ہے۔ یہ پورا خطہ پہلے بر صغیرکہلاتا تھا مگر اب اسے جنوبی ایشیا کہتے ہیں۔ ہم نے گزشتہ چار کالموں میں اس پر برطانوی راج میں روا رکھے جانے والے اس سلوک کا جائزہ لیا جو عام آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے‘ بلکہ یوں کہیں کہ رکھا جاتا ہے۔ ہم جب مطالعہ پاکستان اور تاریخِ پاکستان کی کتابوں کو دیکھتے ہیں تو اس اہم ترین موضوع کا ذکر نہ ہونے کے برابر ملتا ہے جو کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح اس موضوع پر بھارت
کی فلم انڈسٹری‘ جو دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری سمجھی جاتی ہے‘ نے بھی کوئی قابلِ ذکر فلم نہیں بنائی۔ البتہ داد دینا پڑتی ہے بھارتی پنجاب کے سکھوں کو‘ جنہوں نے نہ صرف اس موضوع‘ بالخصوص جلیانوالہ باغ سانحے‘ پر فلمیں بنائی ہیں بلکہ گاہے گاہے دیگر موضوعات پر بننے والی فلموں میں بھی اس قصے کو چھیڑتے رہتے ہیں۔ سکھوں نے خاص طور پر تقسیمِ ہند کے وقت ہونے والے مظالم کو موضوع بنا کر بہت ساری فلمیں بنائی ہیں‘ اس سلسلے میں گزشتہ سال اُدھم سنگھ پر ایک ہیوی بجٹ فلم بھی بنائی گئی ہے۔اب بات برطانیہ کے دو سو سالہ جابرانہ اقتدار کے کچھ دیگر امور کی۔ برطانیہ والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اس خطے کو تعلیم دی۔ اس بیانیے کی یہ حقیقت تو بیان کی جا چکی ہے کہ تاجِ برطانیہ کے جانے کے وقت اس خطے کی کل
شرحِ خواندگی بیس فیصد سے بھی کم تھی۔ عالمی شہرت یافتہ وِل ڈیورنٹ نے لکھا ہے کہ برطانیہ اس خطے پر جتنا ٹوٹل بجٹ تعلیم پر خرچ کرتا تھا وہ امریکا کی ایک ریاست‘ نیو یارک کی دسویں کلاس (سکول لیول) تک تعلیم کے بجٹ کا لگ بھگ نصف ہوتا تھا۔ یہ موازنہ 1930ء کے قریب کا ہے۔ اس وقت نیو یارک ریاست کی کل آبادی سوا کروڑ تھی جبکہ برصغیر کی آبادی 35 کروڑ سے زائد تھی۔ اب ان دونوں کے تعلیمی اخراجات کا موازنہ کیسے کیا جائے جہاں آبادی اٹھائیس گنا سے بھی زیادہ کا فرق تھا۔ ایک پورے خطے کا تعلیمی بجٹ امریکا کی ایک ریاست کے میٹرک تک کے بجٹ کا بھی نصف۔ اگر گورا یہاں میٹرک تک ہی کی تعلیم کو عام کرنا چاہتا تو اس کے لیے بھی اس بجٹ کو کم از کم 50 گنا تک بڑھانا پڑنا تھا کیونکہ آبادی کا فرق اٹھائیس گنا سے زیادہ تھا اور بجٹ نصف کے برابر تھا۔ ویسے یہ فرق 56 گنا بن جاتا ہے‘ جسے شاید فرق کہنا بھی مناسب نہیں ہے بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ برصغیر کی تعلیم کے لیے برطانیہ کا مختص کردہ بجٹ اس کی نیت سے بھی کہیں کم تھا۔ برطانیہ کا اگلا دعویٰ اس خطے کو جمہوری نظام دینے کا ہے۔ کتنا عجیب لگتا ہے کہ ایک ڈکٹیٹر سے بھی سخت گیر حاکم جمہوریت کی بات کرتا ہے۔ چلیں‘ اگر اس
دعوے کو ایک لمحے کے لیے تسلیم کرتے ہوئے تحقیق کریں تو علم ہوتا ہے کہ جمہوری نظام محض صوبائی سطح پر الیکشنوں کی حد تک محدود تھا اور اس میں بھی اوسطاً اڑھائی سو افراد میں سے ایک بندے کو ووٹ کاحق حاصل تھا جبکہ پہلی بار 1937ء میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا، یوں گورے کی جمہوریت کا اصل دورانیہ دس سال بنتا ہے۔اب اگر گورے کے نظامِ حکومت میں عام آدمی پر ہونے والے مظالم کی بات کی جائے تو اس کی دو صدیوں کو Centuries of Terror کہا جا سکتا ہے۔ اگر لفظ ‘ٹیرر‘ کی ابتدا دیکھیں تو پتا چلتا ہے فرانس میں انقلاب کا آغاز ہونے کے بعد‘ 1793ء سے 1794ء تک‘ ایک سال سے بھی کم عرصے کے دوران ایک ایسا وقت بھی گزرا کہ جس میں ہر اس شخص کو قتل کردیا جاتا تھا جس پر شک ہوتا تھا کہ وہ انقلاب کی مخالفت کرتا ہے۔ اس دوران ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے تھے اس لیے اس عرصے کو Reign of Terror یعنی ‘دہشت کا دورِ اقتدار‘ کہا جاتا ہے۔ Terrorism لفظ کی ابتدا یہیں سے ہوئی تھی۔ اس سے قبل کہیں بھی ٹیررازم یا کوئی ایسی اصطلاح پڑھنے کو نہیں ملتی۔ اب آپ خود سوچیں کہ کتنی عجیب بات ہے کہ گورے کے ظلم‘ جس میں عام آدمی 1793ء کے انقلابِ فرانس کے استبداد سے بھی پہلے سے مارے جارہے تھے‘ کے لیے کوئی اصطلاح تک وضع نہیں کی گئی۔ یاد رہے کہ
اس کالم سیریز کا ایک مقصد برطانوی دور کو مد نظر رکھتے ہوئے اس دور کے جبر و استبداد کو ایک نیا نام دینا بھی ہے۔گورے کی آمد کے بعد اس خطے میں مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے خلیج نما فاصلے اپنی طرز کا ایک انوکھا ظلم ہیں۔ البتہ اس حکمتِ عملی کو عام لوگوں میں کسی حد تک محسوس کیا گیا اور بیان بھی کیا جاتا ہے۔ آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ گورے کی حکمتِ عملیDivide & Rule کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں ایک انتہائی دلچسپ بات بتاتے چلیں کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے مابین تقسیم اور تفریق کے سبب ہی مسلمان وکیل اپنے نام کے ساتھ مولوی کا ٹائٹل لگانے پر مجبور ہوتے تھے۔ نظامِ عدل کی بات کریں تو عدالتی چھٹیوں کی رسم گورے کی ہی دین ہے۔ گورے جج گرمیوں میں چھٹیوں پر برطانیہ چلے جاتے تھے‘ گویا انصاف کی بھی چھٹی ہو جاتی تھی۔اسی طرح دسمبر کے آخری دنوں میں کرسمس منانے کیلئے بھی وہ برطانیہ چلے جاتے تھے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ چھٹیوں کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ججز اور وکیلوں کیلئے سیاہ رنگ کے لباس کا انتخاب بھی برطانیہ ہی کی دین ہے۔ چونکہ برطانیہ میں سردی زیادہ پڑتی ہے اور کالے رنگ کے کپڑے میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ سورج کی شعاعوں اور حدت کو جذب کرتا ہے‘ اس لیے گورے نے سیاہ رنگ کا چنائو کیا؛ تاہم برصغیر میں بھی اسے ہی رائج کیا گیا۔ اس کے ساتھ کوٹ کا استعمال بھی برطانیہ میں سردی کی وجہ سے کیا جاتا تھامگر اس خطے میں گرمی نہ صرف شدید ہوتی ہے بلکہ اس کا دورانیہ بھی زیادہ ہوتا ہے‘ اس کے باوجود یہ سلسلہ یہاں بھی شروع کیا گیا جو آج تک جاری ہے۔اس خطے سے جاتے وقت گورے کی
جانب سے روا رکھی جانے والی ناانصافی کا خمیازہ یہ خطہ ابھی تک بھگت رہا ہے۔ تقسیم کرتے ہوئے ایسی ایسی ناانصافیاں کی گئیں کہ ابھی تک یہ خطہ سنبھل نہیں سکا۔ مشرقی پاکستان میں بھی تقسیم کے اصولوں کے تحت پورا علاقہ نہیں دیا گیا اور تقسیم کا نقشہ بہت پیچیدہ رکھا گیا۔ آج تک‘ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھی‘ بھارت اوربنگلہ دیش میں سرحدی تنازعات موجود ہیں۔ اسی طرح کشمیر کا مسئلہ جان بوجھ کر پیدا کیا گیا۔ پاکستان کو اس کے حصے کے معاشی و فوجی اثاثے نہ دیے گئے۔ ایک انتہائی ظالمانہ غفلت‘ جو جان بوجھ کر برتی گئی‘ تقسیم کے وقت ہجرت کا ماحول پیدا کر دینا ہے۔ اس دوران دنگوں اور فسادات میں مارے جانے والوں کی تعداد لاکھوں بلکہ ملینز میں ہے۔ کتنے ہی خاندان بچھڑ کر رہ گئے۔ اس سلسلے کی ایک تصویر آپ نے حالیہ دنوں میں کرتارپور پر بھی دیکھی ہو گی۔ اُس وقت اس خطے میں موجود برطانیہ کی آرمی کی تعداد دس سے پندرہ لاکھ تھی۔ اگر ایک لاکھ فوجی بھی پنجاب میں تعینات کر دیے جاتے اور اپنے ”فخریہ‘‘ ریلوے نظام کے تحت سپیشل ٹرینیں چلائی جاتیں اور ہر ٹرین پر ایک سو فوجی حتیٰ کہ مسلح پولیس والے ہی تعینات کر دیے جاتے تو یقینا اس خون خرابے کو روکا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر ہجرت کے لیے چھ ماہ سے ایک سال کا عرصہ دیا جاتا تو لوگوں کا جانی و مالی نقصان کم سے کم ہوتا مگر یہاں اس قسم کے حالات جان بوجھ کر پیدا کیے گئے جس کا ایک مقصد خطے کو پسماندہ اور آپس کی رنجشوں میں الجھائے رکھنا تھا۔ اس کے لیے Pogrom کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے کہ جان بوجھ کر فسادات کی راہ ہموار کی جائے۔ اس کا چرچا بھی صرف سکھ ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سوال قارئین کیلئے چھوڑے جا رہا ہوں کہ ان دو سوسالوں کیلئے کسی اصطلاح کا مطالبہ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش کی سرکاروں کو کرنا چاہیے کہ نہیں؟ آج کی اصطلاح گورے کے کھیل کرکٹ کی مناسبت سے ہے کہ گورے کا دور Two Centuries of Terror تھا۔