اچھا تو یہ بات ہے : سلیم صافی نے ساری پلاننگ بے نقاب کردی
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موجودہ الیکشن کمیشن بھی ابتدا میں سابق الیکشن کمیشن کی طرح مہربان رہا کیونکہ پارٹی فنڈنگ کیس کو وہ اسی طرح لٹکاتا رہا جس طرح جسٹس سردار رضا کا الیکشن کمیشن لٹکاتا رہا۔موجودہ چیف الیکشن کمشنر شاید اس حد تک نہیں جاسکتے
جس حد تک سابق چیف الیکشن کمشنر اور بالخصوص ان کے سیکرٹری گئے تھے۔ اس دوران ڈسکہ کے الیکشن کا مرحلہ آیا جس میں حکومت نے پریزائڈنگ افسروں کو اٹھا لیے جانے کے واقعہ نے حد کردی۔ یہ وہ انتہا تھی جس پر الیکشن کمیشن کو احساس ہوا کہ اگر اس نے خاموشی اختیار کرلی تو اس کی کریڈیبلٹی خاک میں مل جائے۔ چنانچہ الیکشن کمیشن اس معاملے پر متحرک ہوا اور حکومت کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ یہاں سے حکومتی صفوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ واضح رہے کہ اگلے انتخابات کو 2018 جیسے انتخابات بنانے کی ذمہ داری مبینہ طور پر عارف علوی اور بابر اعوان صاحب نےاٹھا رکھی ہے۔ منصوبہ بندی کرنا ان دونوں کا کام ہے اور روبوٹ کی طرح اس کے تحت کردار ادا کرنا شبلی فراز وغیرہ کا کام ہے۔ ای وی ایم مشین سے بھی زیادہ اوورسیز پاکستانیز کی ووٹنگ میں گڑبڑکرنا مقصود ہےلیکن اپوزیشن کی نااہلی کی وجہ سے زیادہ توجہ ای وی ایم مشین پر ہے۔ بہ ہر حال اعظم سواتی صاحب کی قیادت میں چند وزرا جن میں فواد چودھری اور شبلی فراز بھی شامل تھے، چیف الیکشن کمشنر کے پاس حاضر ہوئے۔پہلے ان پر احسانات جتائے کہ کس طرح ہم نے آپ کو الیکشن کمشنر بنایا۔ پھر ان کے سامنے اوورسیز ووٹنگ اور ای وی ایم سے متعلق اپنے مطالبات رکھ دیے۔ اس دوران چیف الیکشن کمشنر کو دبائو میں رکھنے کے لئے الیکشن کمیشن کے ریٹائرڈ ہونے والے دو ارکان کے تقرر میں بھی تعطل سے کام لیا جارہا تھا تاکہ تین افراد پر مشتمل کمیشن کو منیج
کرنا حکومت کے لئے آسان ہو۔ چیف الیکشن کمشنر اور ان کی ٹیم نے ان سے عرض کیا کہ یہ دونوں کام ممکن نہیں۔انہیں بتایا گیا کہ اوورسیز پاکستانی زیادہ تر عرب ممالک میں ہیں، جن میں اکثریت مزدور طبقے کی ہے۔ وہ ای میل وغیرہ کے ذریعے ووٹنگ نہیں کرسکیں گے جبکہ عرب ممالک میں ہم درجنوں پولنگ اسٹیشن بناسکتے ہیں اور نہ وہاں کی حکومتیں اس کی اجازت دیں گی۔ یہی عذر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے پیش کیا گیا کہ اتنی تعداد میں مشینیں خریدنا، اس کے لئے بجٹ کا انتظام کرنا، پھر ان کو رکھنا، پھر ملک بھر میں ان کی ترسیل کا بندوبست کرنا اور وہاں پر چلانے کے لئے آئی ٹی کے ماہر بندوں کا انتظام کرنا،ممکن نہیں۔ جب ہزاروں مشینوں کو رکھنے کی بات آئی تو شبلی فراز صاحب نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھ دی کہ میں اپنی سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کی بلڈنگ میں ان کو رکھوا دوں گا۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ جناب عالی! الیکشن کمیشن حکومت کا نہیں بلکہ ریاست کا ادارہ ہے اور یہ کہ الیکشن کے وقت آپ نہیں بلکہ نگران وزیر ہوں گے۔ الیکشن کمیشن اپنا مواد کس طرح ایک وزارت کی بلڈنگ میں رکھ سکتا ہے۔ بہ ہر حال اس نشست کے بعد وزرا سیخ پا اور مایوس ہوکر نکلے اور عمران خان کو یہ رپورٹ دی کہ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا بننے کو تیار نہیں،چنانچہ اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر کو پریشرائز کرنے اور رخصت کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
پہلے ان کے خلاف ریفرنس بھیجا گیا اور اب جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، وہ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہر الیکشن میں گڑبڑ ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ اصل گڑبڑ پری پول رگنگ ہوتی ہے۔ الیکشن سے پہلے پارٹیوں کو توڑ ا جاتا ہے۔ ان کے رہنمائوں کے خلاف کیسز درج کئے جاتے ہیں۔ مختلف حربوں سے کبھی مسلم لیگ (ن)، کبھی مسلم لیگ (ق) اور کبھی پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھری جاتی ہے۔ پریشرائز کے ذریعے الیکٹ ایبلز کو کنگ پارٹی میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ اب کیا ای وی ایم مشین اس مسئلے کے حل میں کوئی مدد دے سکتی ہے ؟ ہر گز نہیں۔ دوسری قسم کی گڑبڑ گنتی کے دوران اور پھر ریٹرننگ افسران تک نتائج پہنچانے کے دوران کیجاتی ہے۔ پچھلے الیکشن میں یہ نئی ریت ڈالی گئی کہ بعض جگہوں پر گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹوں کو نکالا گیا۔ اب ووٹنگ آپ نے مشین سے کی ہو یا مینول کی ہو، لیکن اگر پولنگ ایجنٹوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے تو پھر اس مشین کا کیا فائدہ ؟ یہ تجویز لانے والے یہ بھی نہیں سوچتے کہ پاکستان میں تقریبا ڈھائی لاکھ پولنگ بوتھ ہوں گے۔ یہ مشین تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں ایک ووٹر آئیڈنٹٹی فکیشن مشین بھی ہے۔ وہ 80 ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک درکار ہوںگی۔ مشین کا دوسرا حصہ بیلٹ یونٹ ہے جو ساڑھے تین لاکھ درکار ہوں گے۔
اسی طرح ساڑھے تین لاکھ بیلٹ پرنٹ کرنے والے پرنٹرز درکار ہوں گے۔ یوں تقریبا دس لاکھ مشینیںدرکار ہوں گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس پر دو سو ارب روپے خرچہ آئے گا۔ اب وہ حکومت جو تین سال میں قبائلی اضلاع کو ایک سو ارب روپے نہیں دے سکی، اس کام پر دو سو ارب روپے خرچ کررہی ہے! یہ مشینیں بجلی سے چلیں گی اور خود ہمارے ایک وزیر گزشتہ روز اسمبلی کے فلور پر کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان کے تیس فی صد علاقے میں بجلی نہیں۔ اگر الیکشن گرمی میں ہوئے تو کئی جگہوں پر لوڈشیڈنگ بھی ہوگی۔پھر یہ مشینیں کیسے چلیں گی؟ ان مشینوں کو چلانے کے لئے اس کے ماہر لاکھوں کی تعداد میں رکھنے پڑیں گے۔ اس ماہر کو ووٹر کو بتانا ہوگا کہ یہ یہ کام کریں اور یوں وہ ووٹر سے غلط بٹن بھی دبوا سکتا ہے اور اس کے ووٹ کے بارے میں جان بھی سکتے ہیں۔ پاکستان میں بڑا مسئلہ پولنگ اسٹیشن سے ریٹرننگ آفیسر اور مرکزی الیکشن کمیشن تک ریکارڈپہنچانے کا ہے اور زیادہ گڑبڑ اس عمل میں کی جاتی ہے لیکن یہ مشین اس کام میں مدد نہیں دے سکتی کیونکہ یہ مرکزی سسٹم کے ساتھ منسلک نہیں ہوگی۔ اس مسئلے کے حل کے لئے گزشتہ الیکشن میں آر ٹی ایس سسٹم بنایا گیا لیکن ہم نے اس کا حشر دیکھ لیا۔ اس تناظر میں معاملے کو دیکھ لیں تو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ ای وی ایم محض بہانہ، الیکشن کمیشن کو پریشرائز کرکے پارٹی فنڈنگ کیس کے فیصلے سے باز رکھنا اور اگلے انتخابات کو بھی 2018 جیسا بنا نا ہے۔