in

کیا یہ ڈرامہ کوئی باپ اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتا ہے ؟ پاکستان کے چند ایسے ڈرامے جن پر لوگوں نے شدید تنقید کی

کیا یہ ڈرامہ کوئی باپ اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتا ہے ؟ پاکستان کے چند ایسے ڈرامے جن پر لوگوں نے شدید تنقید کی

کیا یہ ڈرامہ کوئی باپ اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتا ہے ؟ پاکستان کے چند ایسے ڈرامے جن پر لوگوں نے شدید تنقید کی

لاہور: (ویب ڈیسک) مہوش اور دانش کی پسند کی شادی ہے وہ ایک درمیانے طبقے سے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہیں۔ مہوش فطرتاً مادیت پسند ہوتی ہے۔ وہ اپنے شوہر سے اپنی حسرتوں کا اظہار کرتی ہے لیکن شوہر سادہ مزاج آدمی ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک اسکی کل کائنات اس کے بیوی بچے ہوتے ہیں۔

اس کے پاس امیر ہونے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ ادھر مہوش دانش کے دوست کو بھا جاتی ہیں۔ مہوش بھی دوست کی دولت سے متاثر ہوتی ہیں۔ اور وہ اس بندے کی خاطر اپنا شوہر بچہ سب چھوڑ دیتی ہیں۔ اور بنا کسی رشتے کے ایک نا محرم کے ساتھ رہنے لگتی ہے۔ یہ موجودہ دورکے ایک مقبول ترین ڈرامے کی کہانی ہے۔ اس میں کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ ایک شادی شدہ عورت اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنا گھر بچہ سب داؤ پر لگا سکتی ہے؟ کیا ہماری سوسائٹی میں یہ اتنا آسان ہے؟ اور کیا ہماری سوسائٹی میں یہ قابل قبول ہے؟ اب دیکھا جائے تو یہ بات ہماری سوسائٹی کے taboos کے خلاف ہے۔ اگر ہم معاشرے کی چھپی ہوئی برائیوں کا اس طرح پرچار کریں گے تو معاشرے میں چھپ کر بے حیائی پھیلانے والے افراد کھل کر سامنے آجائیں گے اور بھلے برے کی تمیز ختم ہو جائے گی۔ نور مقدم کیس ہمارے سامنے ہے۔

جو درندگی کی بد ترین مثال ہے۔ ۔ یعنی دھیرے دھیرے معاشرے کو ان برائیوں کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ ایک اور ڈرامے کی پہلی قسط دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کچھ یوں تھا کہ ایک خاتون کا بیٹا کمائی کے لئے ملک سے باہر تھا تو ساس صاحبہ نے بہو پر ظلم و ذیادتی کے پہاڑ توڑے ہوئے تھے اور مزے کی بات کہ منفی کرداروں کو اتنا مضبوط دکھایا جاتا ہے کہ بس دنیا ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔مظلوم کا تو بس نہ پوچھیں وہ بیچارہ تو بس آنکھ بند کر کے ظلم سہنے کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ایک ہی قسط برداشت سے باہر تھی پتہ نہیں عوام کیسے برداشت کر رہی ہے۔ جب بھی کوئی ڈرامہ لگاؤ ایک عورت دوسری عورت کی دشمن اور اس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف دوسری عورت کی زندگی کو جہنم بنانا ہوتا ہے۔ کیا یہ کردار ہمارے معاشرے کے عکاس ہیں؟۔

ہم نے تو اپنے آس پاس خاندانوں کو جوڑ کر رکھنے والی عورتوں کو دیکھا ہے۔ یہی تو ہمارے معاشرے کی خوبصورتی ہے کیوں ہم بھارت کے ڈراموں کی تقلید میں اپنے معیار کو گرا رہے ہیں صرف اور صرف اچھی ریٹنگ کے لئے۔۔۔۔۔۔افسوس صد افسوس۔ اب مقبول ڈرامے پیار كے صدقے کی بات کی جائے تو اِس ڈرامے كے سین بولڈ نہیں تھے لیکن اگر اِس کی کہانی کا پتہ چل جائے تو شاید شرم سے پانی پانی ہو جائیں- اِس کہانی میں سسر بہو کے پیار میں مبتلا سوچیں كے کیا یہ ڈرامہ اِس لائق ہے كے کوئی باپ اسے اپنی بیٹی كے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتا ہے یا کوئی بہو اِس ڈرامے کو اپنے باپ كے برابر سسر كے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکے۔ اِس كے علاوہ اِس ڈرامے میں سسر کو اپنی بہو كے ساتھ بہت بے تکلف باتیں کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے تو کیا یہ سب ہمارے کلچر کا حصہ ہے جو آج کل ڈرامہ چل رہے ہیں۔ 80 اور 90 کی دہائی میں گلیاں سنسان ہو جاتی تھیں اور ان ڈراموں میں سبق ہوتا تھا جو زندگی کے مسئلہ کو سمجھنے میں کارگر ہوتا تھا ۔ چند ڈرامے ایسے تھے جو اپنی کہانیوں اور کرداروں کی وجہ سے امر ہو گئے فہرست کافی لمبی ہے لیکن ان میں سے چند ایک تنہائیاں ’دھوپ کنارے‘ خدا کی بستی ’جانگلوس‘ آنگن ٹیڑھا ’وارث‘ اندھیرا اجالا ’ان کہی‘ دھواں ایک محبت سو افسانے وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن جیسے ہی وقت نے کروٹ لی سیٹلائیٹ کا دور آیا بے شمار ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوتی گئی اور اس کے ساتھ ہی ڈراموں کا معیار گرنا شروع ہو گیا یعنی زوال شروع ہو گیا۔ اب ڈرامے اور ٹی وی چینلز بے شمار ہیں لیکن معیار ندارد۔ ہر چینل پر عجیب و غریب اور کم و بیش معمولی تبدیلیوں کے ساتھ کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ جو زیادہ تر رومانوی ناولز سے بھی لی جاتی ہیں۔ گھسی پٹی ’فحاشی پر مبنی کہانیاں جن میں ایک سگی بہن ہی اپنے بہنوئی پر ڈورے ڈالتی ہے تعلقات رکھتی ہے اپنی ہی بہن کا گھر خراب کرتی ہے‘ سگی بہنیں ہی ایک دوسرے کے لئے سازشیں کرتی ہیں ’بلاوجہ طلاق دینا اور خلع لینا‘ نوکرانی کے ساتھ تعلقات ’ایک شوہر کے ہوتے ہوئے اسی کے دوست کے ساتھ دوستی کر لینا پھر طلاق- آج کل کے ڈرامے انٹرٹینمنٹ نہیں بلکہ ڈپریشن کا مؤجب بنتے جا رہے ہیں۔

سونے پر سہاگہ یہ کہ اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہوئے ٹاک شوز اور مارننگ پروگرامز بھی دکھائے جا رہے ہیں جو معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کے ذریعہ بنتے ہیں۔ حکومت اور پیمرا کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہم اچھا اور اعلیٰ قدروں والا معاشرہ ترتیب دیں سکیں۔ اس سلسلے میں انتہائی اہم اور سخت فیصلے کیے جائیں تاکہ اس قوم کو تباہی سے بچایا جا سکے۔یاد رہے یہ وہ ڈرامے تھے جن پر نشر ہونے کے دوران ہی عوام کی جانب سے بہت تنقید کی گئی اور انہیں ہمارے معاشرے کے خلاف قرار دیا گیا- ہمارے میڈیا کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور ریٹنگ کو پس پشت ڈال کر قوم کے اخلاق کو سنواریں۔ ڈراموں اور پروگرامز کا مقصد لوگوں کو سستی تفریح مہیا کرنا ہوتا ہے نہ کہ قوم کو گمراہ کن مواد دکھا کر معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنا ۔ تہذیب و تمدن کسی بھی معاشرے کا سرمایہ ہوتی ہیں ۔ اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

بالی وڈ سے افسوسناک خبر! معروف شخصیت انتقا ل کر گئی

سائرہ یوسف اور احمد علی اکبر شادی کر رہے ہیں؟