کالی مرغی کا کالا گوشت اورانڈے بھی کالے ،عمران خان کے ایک مشورے نے زندگی بدل ڈالی دنوں میں لکھ پتی ہونے والے شخص کی کہانی
جس وقت عمران خان صاحب اقتدار میں آئے تو انہوں نے لوگوں کو خود انحصاری کی طرف راغب کرنے کے لیے گاؤں کے افراد کو مشورہ دیا کہ وہ مرغیاں اور مرغے پالیں اس سے ایک جانب تو مستقل آمدنی کا ایک ذریعہ بن جائے گا دوسرا اس سے گھر کی خواتین کو فاضل آمدنی بھی ہو جائے گی-ان کی اس تجویز کو
اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا یہاں تک کہ جب عمران خان نے تین مرغیاں اور ایک مرغا بے روزگار لوگوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تو اس حوالے سے ان کو سخت مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا-مگر لاہور کے علاقے شاہدرہ کے ایک نوجوان نے نہ صرف خان صاحب کے مشورے پر عمل کیا بلکہ ان کی ہدایات کے مطابق اپنے گھر کی چھت پر چار چوزے ایام سومانی نسل کے لا کر رکھ لیے اور ان کو پالنا بھی شروع کر دیا-اس خاص نسل کی یہ خصوصیت ہے کہ اس نسل کی مرغی اور مرغا بالکل کالے رنگ کا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کا گوشت اور انڈے بھی کالے ہی رنگ کے ہوتے ہیں اور ان کی بہت زیادہ ڈیمانڈ خصوصاً عرب ممالک میں ہے جہاں تلور کی جگہ اب اس کا گوشت کھایا جا رہا ہے-فیصل گجر کے مطابق صرف چار مرغیوں سے شروع ہونے والا ان کا کاروبار اب لاکھوں روپے کا منافع دے رہا ہے ان کے مطابق جب انہوں نے چوزے لیے تھے تو فی چوزہ چار ہزار تک کا تھا جو کہ تقریباً تین چار مہینوں میں انڈے دینے والی مرغی
میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اس کی قیمت 40000 تک ہو جاتی ہے-اس کے ساتھ ساتھ ہر مرغی مہینے میں 15 سے 20 انڈے دیتی ہے اور ہر انڈے کی قیمت 1500 سے 2000 ہزار تک ہوتی ہے اگر انسان انکیوبٹر میں رکھ کر ان انڈوں سے چوزے نکالے تو ان کی قیمت 4000 روپے فی چوزہ تک ہو جاتی ہے- اس طرح ہر مرغی ماہانہ صرف انڈوں کی صورت میں چالیس سے پچاس ہزار کا منافع دیتی ہے-فیصل گجر کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو سال قبل صرف چار مرغیوں کو خریدنے سے وہ اب اس وقت لاکھوں کا منافع کما رہے ہیں بلکہ اس کاروبار کے لیے انہوں نے علیحدہ سے کوئی جگہ نہیں لی ہے بلکہ صرف اپنے گھر کی چھت پر بہت مختصر جگہ پر یہ کام کر رہے ہیں-اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے باقی لوگوں کو بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی وزیر اعظم صاحب کے اس مشورے پر عمل کر کے لکھ پتی بن سکتے ہیں-