in

1993 میں غلام اسحاق خان نے نواز شریف کے بارے میں ایسی کیا پیشگوئیاں کی تھیں جو آج حرف بحرف پوری ہو چکی ہیں ؟

1993 میں غلام اسحاق خان نے نواز شریف کے بارے میں ایسی کیا پیشگوئیاں کی تھیں جو آج حرف بحرف پوری ہو چکی ہیں ؟

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار میاں غفار احمد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مریم نواز شریف اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو آج کل موضوع بحث ہے۔ مریم نواز نے اس پر اخبار نویسوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنی گفتگو پر کسی بھی قسم کی

شرمندگی محسوس کئے بغیر اپنی نجی گفتگو کی ریکاڈنگ پر اعتراض کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ اعتراض وہ محترمہ کر رہی ہیں جنہوں نے یہ ’’احسن کام‘‘ اپنے والد سے ورثے میں سیکھا ہے۔ بہرحال ایک بات مزید عیاں ہو گئی، یار لوگ سمجھتے تھے کہ میاں نوازشریف کی اولاد کو والد کی طرف سے محض دولت ہی ملی، اب اندازہ ہو رہا ہے کہ ترکے میں اور بھی بہت کچھ ملا ہے۔ مجھے مریم نواز شریف کے والد محترم کے اس ترکے سے بھی آگاہی ہے جو انہوں نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لاکھوں کی تعداد میں تصاویر لاہور کے شہریوں پر پھینکوائی تھیں اور بعض معاملات کا تو میں عینی شاہد ہوں۔ کئی سال قبل شملہ پہاڑی کے قریب ایمپرس روڈ پر میاں محمد شریف کا کاروباری دفتر ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مجھے شریف فیملی کے ایک دوست کے ہمراہ ان کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا تو اس دفتر کے عقبی کمرے میں دو لڑکے گفٹ پیک تیار کر رہے تھے اور اس وقت میاں نوازشریف کے پاس پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا قلمدان بھی تھا۔ میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ گفٹ عید کے لئے ہیں جو میاں محمد شریف کی طرف سے بیوروکریسی پولیس و دیگر ’’دوست افسران‘‘ کو باقاعدگی سے بھیجے جاتے ہیں اور یہ بڑے میاں صاحب کا سالہا سال سے معمول ہے جو میاں نوازشریف کے سیاست میں آنے اور وزیر خزانہ کے بعد وزیراعلیٰ بننے کے باوجود تسلسل سے جاری ہے۔کہا جاتا ہے کہ

میاں محمد شریف بہت اچھے “خریدار” تھے مگر نوازشریف نے خریداری کا سلسلہ وہاں سے شروع کیا جہاں میاں شریف نے اسے اپنی انتہا تک پہنچا کر چھوڑ دیا تھا۔ مذکورہ آڈیو کال میں دو سینئر جرنلسٹس کے نام لئے گئے تو اس میں سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت ہے کہ سابق صدر غلام اسحاق خان کے اس بیان کو بار بار پڑھا اور سمجھا جائے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نوازشریف سیاست میں رہے تو تمام اداروں کو تباہ کر دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نوازشریف عدلیہ اور اس ملک کے محافظ اداروں پر بھی دھاوا بولیں گے اور 1993ء میں غلام اسحاق خان کی کہی ہوئی باتیں صرف دس سال ہی میں من و عن درست ثابت ہو گئیں۔ میاں نواز شریف ایک انتہائی کامیاب بزنس مین ہیں اور سیاست بھی ان کے بزنس ہی کا ایک حصہ ہے۔ ایک انتہائی باوقار سیاستدان نے جب اس بات کی تصدیق کی کہ نوازشریف کے پلیٹ لسٹس حقیقت میں بہت زیادہ گر چکے ہیں اور وہ زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، اس حالت میں انہیں کچھ ہو گیا تو حکومت یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی۔ میں نے میاں نواز شریف کے ’’باعزت‘‘ لندن جانے کے چند ماہ بعد ان سے جب وہی سوال دھرایا تو وہ کہنے لگے۔ میاں نوازشریف نے ہر چیز، ہر بندہ اور ہر شعبہ منیج کر لیا تھا حتیٰ کہ میرے ذرائع بھی نوازشریف کے ہاتھوں منیج ہو چکے تھے اور میری 30 سالہ سیاسی زندگی

میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ میری معلومات سو فیصد غلط ثابت ہوئیں۔ کہنے لگے بھئی مان گئے نواز شریف بہت بڑا کھلاڑی ہے اور اگر وہ اپوزیشن میں ہو تو کھل کر خرچ کرتا ہے پھر جب حکومت میں آئے تو نہ صرف کھل کر کماتا ہے بلکہ خرچ کیے پیسے کو کئی ہزار سے ضرب دے کر وصول کرتا ہے۔ میرے وکیل دوست ناراض نہ ہوں تو عرض کروں کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تمام تر تحریک سپانسرڈ تھی اور یقین کی حد تک یہ بات درست ہے کہ اس ساری تحریک کی تمام تر ڈیزائننگ و مالی معاونت میاں نوازشریف ہی نے کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کا قافلہ لاہور سے ملتان کے لئے روانہ تھا تو میں اس احتجاجی جلوس کی کوریج کرنے کے لئے ظفر لون‘ حیدر گردیزی و دیگر دوستوں کے ہمراہ ملتان سے ساہیوال گیا جہاں رات ڈیڑھ بجے جسٹس افتخار محمد چودھری کی تقریر ختم ہوئی۔ تب صورتحال یہ تھی کہ دو منی ٹرک منرل واٹر کی چھوٹی بوتلوں سے بھرے ہوئے تھے اور ایک ٹرک میں لنچ بکس تھے۔ شدت کی گرمی میں لنچ بکس خراب ہونے کا احتمال تھا لہٰذا مجھے یاد ہے کہ جس گاڑی میں دو افراد بھی موجود ہوتے تھے اس میں “نامعلوم کارکن” پانچ چھ بکس اور کئی بوتلیں نہ صرف دے جاتے بلکہ یہ بھی پوچھتے تھے کہ اور تو نہیں چاہئیں۔ پنڈال میں شاید ہی کوئی کرسی ایسی ہو جس کے نیچے لنچ بکس کا خالی ڈبہ اور منرل

واٹر کی بوتلیں نہ پڑی ہوں۔ اتنا کھلا اور وافر کھانا میں نے اس سے قبل کبھی سیاسی جلسوں میں تو نہیں دیکھا تھا۔ میرے بہت سے صحافی دوست جو کوریج کے لئے ماڈل ٹاون میں نوازشریف کے گھر اور اس سے ملحقہ دفتر جاتے تھے۔ اس بات سے آگاہ ہیں کہ وہاں تو شدت کی گرمی میں شربت بھی اتنے چھوٹے گلاسوں میں ملتا تھا کہ 32 دانت بھی تر نہیں ہوتے تھے۔ دوسری طرف چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین کا دسترخوان بہت وسیع تھا۔ نوازشریف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہیں ہر شخص کی قیمت کا بخوبی علم ہوتا تھا اور مجھے یاد ہے کہ جب پرویز مشرف کی ڈیل کے بعد نوازشریف کی لاہور میں واقع رہائش گاہ سے 82 سوٹ کیس اور ٹرنک اسلام آباد میں ائرپورٹ پر لیجائے جا چکے تھے اور ان کی پرواز تیار تھی تب تک بھی کسی کے علم میں نہ تھا کہ نوازشریف سعودی عرب جا رہے ہیں حتیٰ کہ جس روز نوازشریف روانہ ہوئے اس روز کے مسلم لیگی رہنماوں کے اخباری بیانات کو تو ریکارڈ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سچ یہ ہے کہ جاوید ہاشمی اور چودھری نثار علی خان کو بھی مکمل علم نہ تھا کہ نوازشریف اور پرویز مشرف کے درمیان معاہدہ ہو چکا ہے۔ نواز شریف کی غیر موجودگی میں مسلم لیگ کی سربراہی کے لئے جو فیصلہ ہوا وہ ایک الگ سے داستان ہے۔ بڑے بڑے رہنماؤں کو اس بات کے حوالے سے کوئی مصدقہ رہنمائی نہ مل سکی کہ

نوازشریف کی سزا جزا میں تبدیل ہو چکی ہے۔ بات ہو رہی تھی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی تحریک بحالی کی، تو اگلے روز جون کے آخری عشرے کی تپتی دوپہر جب ہم جلوس کے ہمراہ ساہیوال سے ملتان روانہ ہوئے تو منرل واٹر کا ٹرک بھی ساتھ ہی تھا۔ قریباً اسی قسم کی ضیافت کا سامان ملتان میں بھی تھا۔ ہم نے تو من و سلوٰی کا قصہ قرآن مجید ہی میں پڑھا البتہ ان دو روز کے دوران لنچ باکسز اور منرل واٹر کی بوتلوں کی بارش نما فراوانی میں نے کہیں نہیں دیکھی۔ آج یہ الفاظ کہتے ہوئے پھر سے جہانگیر بدر مرحوم کا ادا کردہ تاریخی جملہ یاد آ جاتا ہے جسے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہم دو لاکھ سے شروع ہوتے ہیں اور نواز شریف کی شروعات ہی دو کروڑ سے ہوتی ہیں۔ وہ کون سا اپنے گھر سے دے رہے تھے لوٹ کا مال تھا۔ منظم کارروائیوں کی کمائی تھی اور پھر مال چوری کا ہو تو پھر گز تو ’’ڈانگوں‘‘ ہی کے ہوا کرتے ہیں۔شریف فیملی کی تھیوری ہمیشہ ہی سے یہ رہی کہ کسی کو اس کی سوچ سے بڑھ کر آفر کر دو اور اسے سوچنے کی مہلت ہی نہ دو۔ وہ پیشکش کا سن کر انکار ہی نہ کر سکے اور کوئی ایک مرتبہ فروخت ہو جائے تو آنکھیں کہاں اٹھا سکتا ہے۔ایک مرتبہ پھینکا گیا پیسہ سالہا سال تک تماشا دکھاتا رہتا ہے اور نوازشریف بیرون ملک بیٹھ کر بھی تماشا لگائے رکھتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں طاقتور کہلانے والوں کی کمزوریاں نواز شریف سے بڑھ کر کوئی سمجھ ہی نہ سکا۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

سانحہ مری کی ایف آئی آر وزیراعظم عمران خان کیخلاف درج۔۔۔؟واقعہ حکومت کی غفلت قرار دیدیا گیا

جہانگیر ترین کی صاحبزادی پوری دنیا میں کس کام کیلئے مشہور ہیں ؟ پاکستانی جان کرکانوں کو ہاتھ لگائیں گے