in

اوریا مقبول جان نے امت مسلمہ کو جھنجھوڑنے کا فرض ادا کردیا

اوریا مقبول جان نے امت مسلمہ کو جھنجھوڑنے کا فرض ادا کردیا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پٹرول جو زیادہ تر مسلم اُمہ کی ملکیت ہے، اس میں اس قدر قوت ہے کہ اگر آج اس کی خریدوفروخت پاکستانی روپے میں شروع کر دی جائے تو ایک روپے کی قیمت بڑھ کر اتنی ہو جائے

اس میں کئی ڈالر اور کئی یورو آنے لگیں۔ افغانستان وہ ملک ہے جسے لیتھیم کا سعودی عرب کہا جاتا ہے۔ لیتھیم آئندہ صدی کی سب سے اہم دھات ہو گی، جس کے بغیر طاقت و قوت اور غلبے کا تصّور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ افغانستان میں 421 ارب ڈالر کا لوہا، 274 ارب ڈالر کا تانبا، 81 ارب ڈالر کی نیووابیم، 51 ارب ڈالر کی کوبالٹ، 26 ارب ڈالر کا مولیڈینم موجود ہے اور تیل کے ایسے ذخائر موجود ہیں جن سے ایک اندازے کے مطابق پوری ایک صدی تک تیل نکالا جا سکتا ہے۔ پوری دُنیا کے آٹھ ملک ایسے ہیں جو ایٹمی قوت ہیں۔ ان میں سے ایک مسلمان ملک پاکستان بھی ہے۔ معدنیات، زراعت، تیل، افرادی قوت اور ایٹمی قوت اگر یہ سب ملا کر اس مسلم اُمت کو دیکھا جائے

تو یہ دُنیا کا طاقتور بلاک نظر آتا ہے۔ نیٹو کا اتحاد اس کے مقابلے میں انتہائی کمزور اور بے معنی محسوس ہوتا ہے۔ افغانستان میں ذلّت آمیز شکست کے بعد تو اب کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار ہی نہیں کہ نہتے مسلمان مردان صف شکن کے مقابلے میں دُنیا کی کوئی ٹیکنالوجی جیت سکتی ہے۔ افغانستان کی اس جیت اور اُمتِ مسلمہ کی پیہم ذلّت و رُسوائی کے بعد یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ دیگر ستاون اسلامی ممالک اور افغانستان میں کیا فرق ہے؟ ذلّت و رُسوائی اور شکست ان کا مقدر کیوں ہے۔ ناکامی و نامرادی نے ان کا گھر کیوں دیکھ لیا ہے۔ لاتعداد دانشور نما محقق دُور

کی کوڑیاں لاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے چونکہ ان مسلم ممالک میں جمہوریت نہیں اس لئے یہ ترقی نہیں کرتے،کوئی تعلیم کی کمی، سہولیات کے فقدان کی بات کرتا ہے تو کوئی لیڈر شپ کی بددیانتی کو اس کا سبب گردانتا ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا: سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں اقبالؒ نے جس سبب کی طرف اشارہ کیا ہے وہ سبب ان ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں پر کتابِ ہدایتِ قرآن نے چودہ سو سال پہلے واضح کر دیا تھا۔ اللہ نے اُمتوں کی ذلّت و رُسوائی کی صرف ایک ہی وجہ بتائی ہے۔

اللہ کے نزدیک ایک خطا ایسی ہے کہ کسی اُمت سے سرزد ہو تو پھر اللہ پہلے تو اس دُنیا میں اس کی سزا دیتا ہے اور آخرت میں شدید عذاب ایسی اُمتوں کا منتظر ہو گا۔ اللہ فرماتا ہے، ’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دُنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیئے جائیں‘‘ (البقرہ: 85)۔ پوری مسلم اُمت کی آج یہی حالت ہے۔ ہم نماز، روزہ، حج، زکوۃ کو تو مانتے ہیں لیکن سود سے انکار کی جرأت نہیں کرتے۔ پردے کی آیات روزانہ نمازوں میں تلاوت کی جاتی ہیں لیکن ہمارا پورا معاشرہ اس سے واضح طور پر انکار کرتا نظر آتا

ہے۔ اللہ کے بنائے گئے قوانین کے مطابق فیصلے کرنا تو بہت دُور کی بات ہے ہم تو روزانہ ان کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ یہ سب اللہ کی کتاب کے ایک حصے کو ماننا اور دوسرے سے انکار ہے، جس کی سزا اللہ نے دُنیا میں ذلت و رسوائی رکھی ہے۔ اسی طرح اور ایک عذاب ہے جو اللہ دُنیا میں ہی قوموں کو دیتا ہے، اللہ فرماتا ہے۔ ’’اور جو میرے ذکر سے روگردانی کرے گا تو اس کی گزران مشکل کر دی جائے گی اور ہم اسے روزِ قیامت اندھا کر کے اُٹھائیں گے ‘‘ (طہٰ: 124)۔ یہاں قرآن میں لفظ ’’معیشتِ ضنکا‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔

یعنی ایک ایسی معیشت کہ جس میں انسان کے پاس وسائل تو ہوتے ہیں مگر وہ ضروریات کیلئے ترستا رہتا ہے، مجبور و دربدر رہتا ہے۔ دُنیا بھر میں ذلیل و رُسوا ہوتا ہے۔ اُمت کے ایسے افراد جو ’’ذکر‘‘ یعنی قرآن کو فراموش کر دیں گے وہ جب اندھے اُٹھائے جائیں گے تو روزِ محشر سوال کریں گے ، ’’الٰہی مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اُٹھایا، حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔ (جواب ملے گا) اسی طرح ہونا چاہئے تھا تو میری اُتاری گئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تجھے بھلا دیا جانا ہے‘‘ (طہٰ: 125)۔ پوری اُمت کے علی الرغم جن مسلمانوں نے افغانستان میں اللہ کی اُتاری گئی آیتوں کو یاد رکھا انہیں اللہ نے دُنیا میں ہی عزت سے نوازا، باقی اُمت بھول گئی، اسے دُنیا میں ہی بھلا دیا گیا اور آخرت کا بھلایا جانا تو یقینی ہے۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

عید کی نماز کیلئے محمد علی جنا ح لیٹ ہو گئے تو پچھلی صف میں نما ز پڑھنے کے بعد اما م صا حب کو کیا کہا ؟

سانحہ مری کی ایف آئی آر وزیراعظم عمران خان کیخلاف درج۔۔۔؟واقعہ حکومت کی غفلت قرار دیدیا گیا