عالمی سازش: تہلکہ خیز انکشافات
لاہور (ویب ڈیسک) افغانستان میں شدیدترین قحط کے امکانات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ 38 ملین آبادی والے اس ملک میں 23 ملین شدید بھوک کا شکار ہیں۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ 87 لاکھ افراد ایمرجنسی کی حالت میں ہیں
اور افغانستان میں بہت جلد لوگ بڑی تعداد میں موت کے منہ میں جانا شروع ہو جائیں گے۔نامور مضمون نگار محمد اسلم ڈوگر اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بھی خبردار کر چکے ہیں کہ افغانستان میں شدید قحط پڑنے والا ہے۔ جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ جان سے جا سکتے ہیں اور دوسرے ممالک میں ہجرت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس بحران سے صرف افغانستان ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ پورے خطے ہی نہیں پوری دنیا تک اس کے اثرات پھیل جائیں گے۔ انہوں نے افغانستان پر پابندیوں کے باوجود ایسے راستے تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا جس کے ذریعے افغانوں کو کم از کم اتنی خوراک مہیا کی جا سکے جس سے وہ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ مگر امریکہ افغانستان سے ناراض ہے اور وہ اسے سزا دینا چاہتا ہے۔ تالبان سے پہلے افغان حکومت امریکی فنڈز سے چلتی تھی۔ اس امداد کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔امریکہ کے پاس افغانستان کے جو مالی اثاثے موجود ہیں ان کو منجمد کر دیا گیا ہے۔ خطے کے تمام ممالک افغانستان کی حالت زار پر افسوس کا اظہار تو کرتے ہیں مگر افغانستان کی مدد کر کے وہ امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کے دو اہم ہتھکنڈے سفارتی اور معاشی دباؤ کو انتہائی ظالمانہ انداز میں استعمال کر رہا ہے۔ 1990ء کے عشرے میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت افغانستان کو 20 ملین ڈالر کی گندم فراہم کی جاتی ہے۔
مگر اب امریکہ کسی ملک یا ادارے کو افغانستان کی کسی قسم کی مدد کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے دنیا کو خبردار کیا تھا کہ اگر افغانستان میں قحط پڑے گا تو دنیا میں افغان مہاجرین، منشیات اور اسلحے کا ایک سیلاب آئے گا۔امریکہ نے اس وارننگ کو بھی نظرانداز کر دیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کا خطرہ مول لے کر افغانستان کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔اگر عالمی اداروں کے خدشات درست ثابت ہوتے ہیں تو موسم سرما افغانستان میں ایک بڑی تباہی لے کر آ رہا ہے۔ امریکی حکومت کے طرز عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ افغانستان سے اپنی ذلت کا بدلہ لینے کے لئے وہاں افسوسناک انسانی المیے دیکھنے کے لئے تیار ہے۔ امریکہ اپنے اقدامات کا جواز تو یہ دیتا ہے کہ تالبان حکومت افغانوں کو انسانی حقوق دے۔ عورتوں کو آزادی دے اور قوانین پر نظرثانی کرے۔ تالبان نے اس کا مثبت جواب دیا ہے مگر مغربی میڈیا میں ایسی خبریں مسلسل دکھائی دے رہی ہیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔افغانستان کی صورتحال سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہو گا۔ یہاں پہلے ہی 30لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں جو معیشت پر ایک بڑا بوجھ ہیں۔ اگر افغانستان سے مزید مہاجرین آتے ہیں تو ناقابل بیان مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ افغانستان سے آنے والے پشتون مہاجرین زیادہ تر پاکستان میں آتے ہیں جبکہ تاجک، ازبک، ہزارہ اور دوسری قومیتوں کے لوگ ایران، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان جاتے ہیں۔
روس کو اس صورتحال پر تشویش ہے۔ وہ امریکہ کی وجہ سے افغانستان کی کوئی مدد نہیں کر رہا ہے۔ تاہم وہ اس خدشے کا اظہار ضرور کر رہا ہے کہ اگر افغان مہاجرین آتے ہیں تو ان میں شرپسند بھی آ سکتے ہیں جو سلامتی کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔امریکہ افغانستان کی مدد کرے گا۔ مگر اس وقت
جب وہاں بڑی تعداد میں لوگ بھوک سے جان بحق ہوں گے۔ ان کی تصاویر اور ویڈیوزمغربی میڈیا پر دکھائی جائیں گی۔ دنیا کو یہ پیغام ملے گا کہ تالبان نے اپنی حکومت تو قائم کر لی مگر وہ اپنے شہریوں کو کھانے کے لئے کچھ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔اب امریکی حکومت اتنی امداد دے گی جس سے اس کی انسان دوستی کا امیج قائم ہو۔ پراپیگنڈے کے ہتھیار کو اب بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور اسے مستقبل قریب میں زیادہ جارحانہ انداز سے استعمال کیا جائے گا۔
افغانستان میں قحط پڑتا ہے۔ لوگ بھوک سے جان دیتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ذمہ دار تالبان حکومت کو قرار دیا جائے گا۔ تالبان کو بہرحال حالات کا ادراک کرنا ہو گا۔ انہیں اپنی بعض پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ دنیا کو امن پسند ہونے کا پیغام دینا ہو گا اور ایسے عالمی اداروں کے کارکنوں کو تحفظ دینا ہو گا جو افغانستان میں خوراک کی فراہمی کے لئے آتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان سے کچھ ٹرک خوراک لے کر گئے مگر جلال آباد کے قریب ان ٹرکوں سے پاکستانی جھنڈا اتارا گیا اور نعرہ بازی کی گئی۔ ایسے عناصر افغانستان کے لئے مستقبل میں بڑے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔
اب تالبان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے عناصر کو کنٹرول کریں۔ پاکستان میں تالبان کے بے شمار حامی ہیں۔انہیں اب خوابوں کی دنیا سے باہر آنا چاہیے۔ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر انہیں افغان بھائیوں کی مدد کے لئے کام کرنا چاہیے۔افغانستان کو تین عالمی طاقتوں برطانیہ، روس اور امریکہ کا قبرستان قرار دیا جاتا ہے۔ مگر اب افغانستان کو افغانوں کا قبرستان بنانے کے لئے اسے قحط کے عفریت کے حوالے کیا جا رہا ہے۔