گھر کے نوکر کو بار بار غلطی پرکتنی بار معاف کر دینا چاہیے ؟ آپ ﷺ کی زندگی سے ایک ایمان افروز واقعہ
لاہور (ویب ڈٰسک) بہت سے لوگ مسلمانوں کو مسلمان کرنا چاہتے ہیں لیکن کلرکانہ سوچ رکھنے والے بیشمار پارسائوں اور پالیسی سازوں نے کبھی یہ سادہ سی بات بھی سوچنے سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ ان پڑھ سے ان پڑھ، جاہل سے جاہل مسلمان بھی دین کامل کی بنیادی تعلیمات سے تو پوری طرح واقف ہے ۔
نامور کالم نگار حسن نثار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔دیہاڑی دار مزدور سے لیکر خوانچہ لگانے والے تک، ڈرائیور سے لیکر باورچی تک، چوکیدار سے لیکر پلے دارتک، مالی سے لیکر گھروں میں کام کرنے والی ماسی تک، چپراسی سے لیکر کلرک تک، ٹھیکیدار سے لیکر اس کے منشی تک، ٹرک ڈرائیور سے لیکر رکشہ ڈرائیور تک، گورکن سے لیکر مردے نہلانے والےتک مجھے پاکستان میں کوئی ایک شخص دکھا دو جو یہ نہ جانتا ہو کہ …..’’جھوٹ بولنے والے پر خدا کی لعنت ہے‘‘’’کم تولنا، ملاوٹ کرنا گناہ ہے ’’رشوت لینے اور دینے والے جہنمی ہیں‘‘’’کھائو، پہنو، خیرات کرو اس حد تک کہ فضول خرچی اور تکبر نہ ہو‘‘’’مظلوم کی بددعا سے ڈرو‘‘’’کوئی شخص تم میں سے ایمان والا نہیں ہو سکتا
جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کیلئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ خود اپنے لئے پسند نہیں کرتا ‘‘(واہ کیا اسلامی بلکہ اصلی معاشرہ ہے)’’کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ ناقص مال بیچے بشرطیکہ خریدار کو اس کےنقص سے مطلع کر دے ‘‘(یہی تو دکاندار کا اصل کمال رہ گیا)’’تم سے پہلی قوموں نے اپنے پیغمبروں اور بزرگوں کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا۔دیکھو تم ایسا نہ کرنا ۔میں تم کو منع کرتا ہوں‘‘(کبھی غور کرنا)’’غیر کیلئے صدقہ نہیں جب قریبی رشتہ دار محتاج ہوں‘‘(یہاں قریبی شریکا ہے)’’رستے روکنے سے پرہیز کیا کرو۔اگر ضروری ہو تو رستے کا حق ادا کرو‘‘(لعنت ان دھرنوں اور احتجاجوں پر جو عوام کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں )’’گوشہ نشینی کو لازم پکڑو، وہ عبادت ہے اور تم سے پہلے نیکو کاروں کا طریقہ ہے‘‘
’’جس نے جہالت سے اللّٰہ کی عبادت کی، اس کا فساد اصلاح سے زیادہ ہوتا ہے‘‘’’عبادت کے دس جزو ہیں۔نو ان میں سے طلب حلال ہیں ‘‘ ( یہاں حلال خور کتنے ہیں؟)’’جو شخص اس کی پروا نہیں کرتا کہ وہ کہاں سے مال کماتا ہے۔ اللّٰہ اس کی پروا نہیں کرے گا کہ اس کو کہاں سے جہنم میں داخل کرے ‘‘(جہنمیوں کی تعداد گنی نہیں جائے گی)’’دستِ بالا یعنی سخی کا ہاتھ دستِ زیریں یعنی سائل کے ہاتھ سے بہتر ہے ‘‘(اپنے قرضوں کے کوہ ہمالیہ پر غور کرو)پوچھا گیا ’’حضورؐ ! ملازم کو کتنی بار معاف کروں؟‘‘آپ خاموش رہے سوال پھر دہرایا گیا۔ آپ پھر خاموش رہے۔تیسری بار پوچھا گیا تو فرمایا ’’ہر ایک دن میں اسے 70بار معاف کرو‘‘(اب مبلغوں سے سجے اس معاشرہ میں مجھے کوئی ایسی ’’معافی ‘‘تو دکھائے )قارئین !یہ تو چند کرنیں ہیں
اس سورج، اس چاند کی جو ابد تک چمکتی رہیں گی۔مجھے تو کوئی پارسا، کوئی پالیسی ساز صرف اتنا سمجھا دے کہ کیا کوئی مسلمان ان میں سے دو چار،دس تعلیمات، ہدایات، فرمودات، احکامات سے بھی واقف نہیں ؟کون ہے جو جھوٹ بولنے، کم تولنے، ملاوٹ کرنے جیسے مکروہ ترین جرائم بلکہ گناہوں سے بھی واقف نہ ہو تو پھر بھی یہ معاشرہ غلاظت سے چھلک کیوں رہا ہے ؟بدی نے یہ سارے سائونڈ بیریئرز کب اور کیسے توڑے کہ صدیوں سے کتابیں یہی کچھ دکھاتی ہیں تو کون کیسی توپ چلا لے گا کہ اس ماحول میں کوئی بہتری آجائے گی ۔مساجد کی تعداد دوگنی کردو، واعظ و مبلغ چار گنا بڑھا دو،
ہر چوک میں ماضی کا ’’حرام‘‘ لائوڈ سپیکر نصب فرما کر جیسے مرضی بھاشن دے لو یہ سب کچھ جوں کا توں رہے گا بلکہ بد سے بد تر اور بدترین ہی ہو گا جو حقیقتاً ہو چکا ہے اور اس کی ایک وجہ ہے کہ ہم بہت بڑے احمق ہیں یا بہت بڑے منافق کیونکہ تاریخ چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ صرف باتوں باتوں اور فقط باتوں سے بات نہیں بنتی ۔خیر، خوبی، نیکی، خوبصورتی، بھلائی کو پیدا کرکے اس کی پرورش کرنے،پروان چڑھانے، جوان کرنے کیلئے مخصوص ماحول (ENVIRONMENT) کی ضرورت ہوتی ہے جو خودغرض، احمق، ہلکے ہولے اتھلے، منافق، رنگ باز، ووٹوں کے حریص تخلیق کرنا تو کیا، سوچ بھی نہیں سکتے ۔یہ سب آرائشی، نمائشی، سطحی کام نہیں ’’وارداتیں‘‘ کرتے ہیں ۔کون نہیں جانتا کہ برصغیر کے مظلوم معصوم مسلمانوں کا ORIGINکیا ہے ؟ تو یہ لڑائی ، یہ ’’تبدیلی‘‘ وزڈم اور وژن کے ساتھ آقاؐ کے سچے غلاموں کی طائف کے پتھروں، شعب ابی طالب کے فاقوں، ہجرتوں اور غزوہ احد جیسے زخموں سے ہی ملے گی ۔فلمی مکالمے بولنے، بیان داغنے، پریس کانفرنسیں کرنے، چالو پالیسیاں بنانے، رنگ بازیاں کرنے اور بول بچنوں سے نہ 74سال میں کچھ ہوا نہ آئندہ ہو گا۔تبلیغوں سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ جہالت زدہ نظام تبدیل کیا جائے، ماحول، معیار، اقدار تبدیل کی جائیں۔سطحی نہیں جوہری، نمائشی نہیں حقیقی تبدیلیوں کی طرف آئو ورنہ ’’تبدیلی‘‘ کا لفظ بھی تعفن اور غلاظت کی علامت بن جائے گا۔انہیں کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ ….ترقیاں وہاں، تبدیلیاں یہاں۔۔۔قرضے یہاں، کائنات کی فتوحات وہاں۔۔۔
اسلام یہاں، اسلامی تعلیمات وہاں۔۔۔بدکردار یہاں، کردار وہاں۔۔۔خواب یہاں، تعبیریں وہاں۔۔۔زوال یہاں، عروج وہاں۔۔۔کشکول یہاں، بھیک وہاں۔۔۔دعائیں یہاں، قبولیت وہاں۔۔۔وعظ ، لیکچر، بھاشن، تبلیغ یہاں، عمل وہاں۔۔۔۔ری ٹریٹ یہاں، چارج وہاں۔۔۔جہالت یہاں، علم وہاں۔۔۔حرام یہاں، حلال وہاں۔۔۔کام چوری یہاں، محنت وہاں ….کہاں تک سنوگے کہاں تک سنائوں ؟مجھے اپنے زوال کا اتنا دکھ نہیں جتنا اس حماقت اور منافقت کا ہے کہ مدتوں سے سب کچھ سامنے ہی نہیں، ہمارے سینوں پر مونگ بھی دل رہا ہے لیکن مجال ہے جو کبھی حماقت اور منافقت میں رتی برابر کمی بھی دکھائی دی ہو۔نوٹ:مجھ محبت بھرے عقیدت بھرے گہنگار غلام نے اپنے حضور ؐاپنے آقا ؐ کی صرف چند ہدایات کا مفہوم پیش کیا کہ اس عمر میں یادداشت ماند پڑنے لگتی ہے لیکن اگر کوئی چیلنج کرنا چاہے پورے تھیئس کو رد کرنا چاہے تو ’’چوراہا‘‘ حاضر ہے ۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ماحول سازگار نہیں لیکن چاہیں بھی تو یہ قابل نفرت، آئوٹ ڈیٹڈ نظام غلام عوام کو ان کے اصل کی طرف جانے ہی نہیں دیتا۔چیف سیکرٹری سے لیکر پٹواری تک کا سیلری سٹرکچر ہی دیکھ لو جو جھوٹ، منافقت، ظلم ، جبرو قہر کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں ۔یہ نظام عوام کو گمراہ کر رہا ہے لیکن پھر بھی تبلیغ پر سر تسلیم خم ہے ۔’’زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے‘‘لیکن زندہ تو جانور اور حشرات الارض کیا، ریڈانڈینز بھی ہوتے ہیں تو نتیجہ ؟’’پاک سر زمین شاد باد‘‘جو آدھی بنگلہ دیش کہلاتی ہے اور باقی آدھی ’’پورا پاکستان‘‘یہ مفلوک الحال ناچتے گاتےتضادات سمجھ کیوں نہیں آ رہے ؟احمق ہیں یا منافق ؟؟؟یا حماقتوں اور منافقتوں کا کمبی نیشن ؟